اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اسی کے مثل مروی ہے اس میں ہے: لیکن مسکین سوال کرنے سے بچنے والا ہے، مسدد نے اپنی روایت میں اتنا بڑھایا ہے کہ (مسکین وہ ہے) جس کے پاس اتنا نہ ہو جتنا اس کے پاس ہوتا ہے جو سوال نہیں کرتا ہے، اور نہ ہی اس کی محتاجی کا حال لوگوں کو معلوم ہوتا ہو کہ اس پر صدقہ کیا جائے، اسی کو محروم کہتے ہیں، اور مسدد نے «المتعفف الذي لا يسأل» کا ذکر نہیں کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث محمد بن ثور اور عبدالرزاق نے معمر سے روایت کی ہے اور ان دونوں نے «فذاك المحروم» کو زہری کا کلام بتایا ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الزَّكَاةِ/حدیث: 1632]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن النسائی/الزکاة 76 (2574)، (تحفة الأشراف:15277)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/260) (صحیح) دون قوله: ’’فذاك المحروم‘‘ فإنه مقطوع من كلام الزهري»
قال الشيخ الألباني: صحيح دون قوله فذاك المرحوم فإنه مقطوع من كلام الزهري ق
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف نسائي (2574) الزھري مدلس وعنعن وحديث البخاري (1476) ومسلم (1039) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 66 ُ
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1632
1632. اردو حاشیہ: (المحروم) کا زکر سورہ معارج میں آیا ہے <قرآن>۔(وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ ﴿٢٤﴾ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ)(المعارج 2 ➎ 24) اور (کامیاب مومنین وہ لوگ ہیں) جن کے مالوں میں ایک معلوم حق ہے۔سوال کرنے والے کا اور محروم کا یعنی ایسا مساکین جو سوال تو نہیں کرتا لیکن صدقے کا مستحق ہوتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1632