الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابي داود
كِتَاب الطَّهَارَةِ
کتاب: طہارت کے مسائل
59. باب الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ
59. باب: موزوں پر مسح کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 155
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، وَأَحْمَدُ بْنُ أَبِي شُعَيْبٍ الْحَرَّانِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا دَلْهَمُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ حُجَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ،" أَنَّ النَّجَاشِيَّ أَهْدَى إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خُفَّيْنِ أَسْوَدَيْنِ سَاذَجَيْنِ فَلَبِسَهُمَا، ثُمَّ تَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَيْهِمَا"، قَالَ مُسَدَّدٌ، عَنْ دَلْهَمِ بْنِ صَالِحٍ، قَالَ أَبُو دَاوُد: هَذَا مِمَّا تَفَرَّدَ بِهِ أَهْلُ الْبَصْرَةِ.
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نجاشی (اصحمہ بن بحر) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دو سادہ سیاہ موزے ہدیے میں بھیجے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پہنا، پھر وضو کیا اور ان پر مسح کیا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/حدیث: 155]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الأدب 55 (2820)، سنن ابن ماجہ/الطھارة 84 (549)، مسند احمد (5/352، (تحفة الأشراف: 1956) (حسن)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
ترمذي (2820)،ابن ماجه (549)
دلھم: ضعيف (تقريب التهذيب: 1830)
ولأصل الحديث شواھد
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 18

   سنن أبي داودأهدى إلى رسول الله خفين أسودين ساذجين توضأ ومسح عليهما
   سنن ابن ماجهأهدى للنبي خفين أسودين ساذجين توضأ ومسح عليهما
   جامع الترمذيالنجاشي أهدى إلى النبي خفين أسودين ساذجين توضأ ومسح عليهما
   سنن ابن ماجهالنجاشي أهدى لرسول الله خفين ساذجين أسودين

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 155 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 155  
فوائد و مسائل:
➊ ہدیہ قبول کرنا اور قبول کے بعد فوراً استعمال میں لانا بھی جائز ہے اور یہ قبول کر لیے جانے کی علامت ہوتی ہے۔
➋ چمڑا رنگنے سے پاک ہو جاتا ہے۔
➌ اس روایت کو اہل بصرہ کے تفردات میں سے شمار کرنا امام ابوداؤد رحمہ اللہ کے تسامحات میں سے ہے۔ [عون المعبود]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 155   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث549  
´موزوں پر مسح کا بیان۔`
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نجاشی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دو سیاہ سادے موزے بطور ہدیہ پیش کئے، آپ نے انہیں پہنا، پھر وضو کیا اور ان پر مسح کیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 549]
اردو حاشہ:
سابقہ تینوں روایات سنداً ضعیف ہیں جبکہ مسئلہ یعنی موزوں پر مسح کرنا صحیح ہےاور صحیحین کی روایات سے ثابت ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 549   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3620  
´کالے موزے پہننے کا بیان۔`
بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نجاشی (اصحمہ بن بحر) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دو کالے اور چمڑے کے سادہ موزے تحفہ میں بھیجے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پہنا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب اللباس/حدیث: 3620]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے شواہد کی بنا پر حسن قرار دیا ہے۔
مسند احمد کے محققین نیز عظیم محقق شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت پر طویل بحث کی ہے اور اس کے شواہد بھی ذکر کیے ہیں جس سے حدیث کو حسن قرار دینے والی رائے ہی اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونےکے باوجود قابل عمل ہے۔
واللہ أعلم مزید تفصیل کے لئے دیکھیے: (الموسوعة الحديثية مسندالإمام أحمد: 38/ 83، 84 وصحيح سنن أبي داؤد (مفصل)
للألبانى: 1/ 266، 268 رقم: 144)


(2)
 حضرت نجاشی رحمہ اللہ حبشہ کے باد شاہ تھے۔
ہجرت مدینہ سے پہلے جو مسلمان ہجرت کر کے حبشہ گئے تھے نجاشی رحمہ اللہ نے انہیں احترام سے رکھا تھا۔
رسول اللہ ﷺنے نجاشی رحمہ اللہ کے فوت ہونے پر ان کی غائبانہ نماز جنازہ ادا فرمائی تھی۔

(3)
سیاہ موزے پہننا جائز ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3620   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2820  
´کالے موزوں کا بیان۔`
بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نجاشی (شاہ حبشہ) نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دو کالے رنگ کے موزے بھیجے، آپ نے انہیں پہنا، پھر آپ نے وضو کیا اور ان دونوں موزوں پر مسح فرمایا۔ [سنن ترمذي/كتاب الأدب/حدیث: 2820]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(سند میں دلھم ضعیف ہیں،
اور حجیر لین الحدیث ہیں،
لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے،
ملاحظہ ہو:
صحیح أبی داؤد رقم: 144)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2820