عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دیواروں پر پردہ نہ ڈالو، جو شخص اپنے بھائی کا خط اس کی اجازت کے بغیر دیکھتا ہے تو وہ جہنم میں دیکھ رہا ہے، اللہ سے سیدھی ہتھیلیوں سے دعا مانگو اور ان کی پشت سے نہ مانگو اور جب دعا سے فارغ ہو جاؤ تو اپنے ہاتھ اپنے چہروں پر پھیر لو“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث محمد بن کعب سے کئی سندوں سے مروی ہے۔ ساری سندیں ضعیف ہیں اور یہ طریق (سند) سب سے بہتر ہے اور یہ بھی ضعیف ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1485]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 119 (3866)، (تحفة الأشراف:6448) (ضعیف)» (عبداللہ بن یعقوب کے شیخ مبہم ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف ضعيف ابن ماجه (3866 مختصرًا) عبدالملك بن محمد بن أيمن و عبد اللّٰه بن يعقوب مجهولان (تق: 4208،3720 وقال : عبد اللّٰه بن يعقوب …… مجهول الحال) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 59
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1485
1485. اردو حاشیہ: دعا کے بعد چہرے پر ہاتھ پھیرنے کی احادیث انفراداً ضعیف ہیں مگر بقول حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ مجموعی لہاظ سے درجہ حسن تک پہنچتی ہیں۔ [بلوغ المرام، کتاب الجامع، باب الذکر والدعاء، حدیث: 1554) شیخ البانی ؒ اور ہمارے محقق شیخ زبیر علی زئی وغیرہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی اس رائے سے متفق نہیں۔ لیکن بعض دوسرے شیوخ بعض آثارصحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کی بنیاد پر جن میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ عمل بیان کیا گیا ہے۔ کہ وہ دعا کے بعد اپنے ہاتھ اپنے چہرے پر پھیر لیتے تھے۔ دیکھئے۔ [الأدب المفرد، حدیث: 609) دعا کے بعد ہاتھوں کو چہرے پر پھیرنے کو جائز قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح دعائے قنوت بھی ان علماء کے نزدیک دعا ہی ہے۔ بنا بریں ان کے نزدیک ہاتھ پھیرنے کے عموم سے استدلال کرتے ہوئے اسکے بعد بھی چہرے پر ہاتھ پھیرنا جائز ہوگا۔ ایک جلیل القدر تابعی رحمۃ اللہ علیہ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے قنوت وتر میں بھی ہاتھ پھیرنے کا عمل ثابت ہے۔ دیکھئے۔ [قیام اللیل للمروزي، ص: 236 و مسائل الإمام أحمد، روایة ابن عبد اللہ، ج: ➋ ص:300) تاہم دعائے قنوت وتر چونکہ نماز کا ایک حصہ ہے۔ اس لئے دعائے قنوت وتر کے بعد منہ پر ہاتھ پھیرنے سے بچنا بہتر ہے۔ کیونکہ اس کا اثبات حدیث سے ہوتا ہے نہ عمل صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین سے۔ واللہ أعلم۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1485
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1181
´دعا میں ہاتھ اٹھانے اور اس کو چہرے پر پھیرنے کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم اللہ تعالیٰ سے دعا کرو تو اپنی دونوں ہتھیلیوں کا باطن منہ کی طرف کر کے دعا کرو، ان کے ظاہری حصہ کو منہ کی طرف نہ کرو، اور جب دعا سے فارغ ہو جاؤ تو دونوں ہتھیلیاں اپنے چہرہ پر پھیر لو۔“[سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1181]
اردو حاشہ: فائدہ: ہ روایت ضعیف ہے۔ اس لئے اس سے دعا کے بعد چہرے پر ہاتھ پھیرنے کا اثبات نہیں ہوتا۔ تاہم بعض علماء نے شواہد کے طور پر اس روایت کوحسن لغیرہ تسلیم کیا ہے۔ علاوہ ازیں بعض صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین کے آثار سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے۔ اس لئے دعا کے بعد چہرے پرہاتھ پھیرنے کی ضرورت نہیں۔ اس لئے اس کا ثبوت صحابہ رضوان للہ عنہم اجمعین سے بھی نہیں ملتا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1181
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3866
´دعا میں دونوں ہاتھ اٹھانے کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم اللہ تعالیٰ سے دعا کرو تو اپنے ہاتھ کی اندرونی ہتھیلیوں سے دعا کیا کرو، ان کی پشت اپنی طرف کر کے دعا نہ کرو، پھر جب دعا سے فارغ ہو جاؤ تو اپنے ہاتھ اپنے منہ پر پھیرو۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الدعاء/حدیث: 3866]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: مذکورہ روایت ضعیف ہے۔ تاہم روایت میں بیان کردہ مسائل دیگر صحیح احادیث اور صحابہ ؓ کے عمل سے ثابت ہیں۔ جیسا کہ حضرت مالک بن یسار ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم اللہ تعالیٰ سے دعا کرو تو اپنی ہتھیلیوں کو پھیلا کر کرو۔ ہاتھوں کی پشت کو پھیلا کر نہ کرو۔“(سنن أبي داؤد، الوتر، باب الدعاء، حدیث: 1186) بنا بریں عام دعاؤں میں ہتھیلیاں ہی پھیلانی چاہیں۔ مگر نماز استسقاء میں جب قحط اور خشکی دور کرنے کی دعا کی جائے۔ تو بطور تفاول (نیک شگون) ہاتھوں کی پشت اوپر کی جانب کی جائے جو کہ سنت رسول سے ثابت ہے۔ باقی رہا دعا کے بعد منہ پر ہاتھ پھیرنے کا مسئلہ تو اس کا ثبوت بھی بعض صحابہ کرام ؓ اور سلف صالحین سے ملتا ہے۔ اس کی بابت امام بخاری نے الادب المفرد میں ابو نعیم سے موقوفا صحیح سند سے روایت بیان کی ہے۔ کہ ابو نعیم فرماتے ہیں۔ کہ میں نے حضرت ابن عمر ؓ اور ابن زبیر ؓ دونوں حضرات کودعا کرتے ہوئے اور اپنی ہتھیلیوں کو چہرے پر پھرتے ہوئے دیکھا نیز اس مسئلے کی بابت امام طبرانی نے یزید بن سعید الکندی کی روایت نقل کی ہے۔ جس کے بارے میں حافظ ابن حجر بیان کرتے ہیں کہ اس کی سند میں ایک راوی ابن لعیہ ضعیف ہے اور اس کااستاد غیرمعروف ہے لیکن اس حدیث کے مؤید شاہد موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اس حدیث کی کچھ نہ کچھ بنیاد ضرور ہے۔ علاوہ ازیں حسن بصری سے بھی حسن سند کے ساتھ اس کی تائید مروی ہے مذید تفصیل کے لئے دیکھئے: (العلل: 2/ 347) گو مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے لیکن یہ عمل صحابہ کرام ؓ سے سلف صالحین سے صحیح سندوں سے ثابت ہے لہٰذا اسے بدعت کہنا درست نہیں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ مسنون نہیں ہے۔ واللہ اعلم
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3866