´بیس راتوں تک نماز`
”. . . حسن بصری سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت پر جمع کر دیا، وہ لوگوں کو بیس راتوں تک نماز
(تراویح) پڑھایا کرتے تھے. . .
“ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر / باب الْقُنُوتِ فِي الْوِتْرِ/ ح: 1429] فوائد و مسائل اسماعیل جھنگوی لکھتے ہیں:
”اہل سنت بیس تراویح سے کم کے قائل نہیں۔“
[تحفهٔ اهل حديث ص ۵۴]
7 تبصرہ: 7
قاضی ابوبکر بن العربی المالکی
(متوفی ۵۴۳ھ) فرماتے ہیں:
”اور صحیح یہ ہے کہ گیارہ رکعات پڑھنی چاہئیں۔
“ [عارضة الاحوذي ۴/۱۹ ح ۸۰۶، تعداد ركعاتِ قيام ر مضان كا تحقيقي جائزه ص ۸۶] کیا قاضی صاحب اہل سنت سے خارج تھے؟
علامہ قرطبی
(متوفی ۶۵۶ھ) لکھتے ہیں:
”اور کثیر علماء یہ کہتے ہیں کہ گیارہ رکعتیں ہیں۔
“ [المفهم من تلخيص كتاب مسلم ۲/۳۹۰، تعدادِ ركعاتِ قيام ر مضان ص ۸۶] امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا:
”اگر رکعتیں کم اور قیام لمبا ہو تو بہتر ہے اور مجھے زیادہ پسند ہے …
“ [مختصر قيام الليل للمروزي ص ۲۰۲، ۲۰۳، تعدادِ ركعاتِ قيام ر مضان ص ۸۵] کیا یہ سب اہل سنت سے خارج تھے؟