الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابي داود
كِتَاب الطَّهَارَةِ
کتاب: طہارت کے مسائل
54. باب فِي الْفَرْقِ بَيْنَ الْمَضْمَضَةِ وَالاِسْتِنْشَاقِ
54. باب: الگ الگ کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 139
حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، قَالَ: سَمِعْتُ لَيْثًا يَذْكُرُ، عَنْ طَلْحَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ:" دَخَلْتُ يَعْنِي عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَتَوَضَّأُ وَالْمَاءُ يَسِيلُ مِنْ وَجْهِهِ وَلِحْيَتِهِ عَلَى صَدْرِهِ، فَرَأَيْتُهُ يَفْصِلُ بَيْنَ الْمَضْمَضَةِ وَالِاسْتِنْشَاقِ".
طلحہ کے دادا کعب بن عمرو یامی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا، اس وقت آپ وضو کر رہے تھے، پانی چہرے اور داڑھی سے آپ کے سینے پر بہہ رہا تھا، میں نے دیکھا کہ آپ کلی، اور ناک میں پانی الگ الگ ڈال رہے تھے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/حدیث: 139]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف: 11128) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کے راوی طلحہ کے والد ”مصرف“ مجہول اور لیث ضعیف ہیں)

وضاحت: ۱؎: یعنی «مضمضة» منہ کی کلی اور «استنشاق‏.» ناک میں پانی ڈالنے، دونوں کے لئے الگ الگ پانی لے رہے تھے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
ليث بن أبي سليم ضعيف مدلس (تقدم: 132)
وحديث ابن أبي خيثمة يغني عنه: روي ابن أبي خيثمة عن شقيق بن سلمة قال :رأيت عليًا وعثمان توضآ ثلاثًا ثلاثًا ثم قالا: ھكذا توضأ النبي ﷺ وذكر أنهما أفردا المضمضة والاستنشاق (التاريخ الكبير لابن أبي خيثمة ص 588 ح 1410 وسنده حسن)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 18

   سنن أبي داوديمسح رأسه مرة واحدة حتى بلغ القذال وهو أول القفا
   سنن أبي داوديفصل بين المضمضة والاستنشاق
   بلوغ المراميفصل بين المضمضة والاستنشاق

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 139 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 139  
فوائد و مسائل:
اس حدیث میں کلی اور ناک میں پانی ڈالنے کے لیے الگ الگ پانی لینے کا ذکر ہے، اسے امام نووی، حافظ ابن حجر اور محقق عصر علامہ ناصر الدین البانی رحمہم الله نے بھی ضعیف قرار دیا ہے۔ لہٰذا مسنون اور مستحب عمل یہی ہے کہ ایک ہی چلو پانی لے کر کلی کی جائے اور اسی سے ناک میں پانی ڈالا جائے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بھی یہی تھا۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے اس کی صراحت موجود ہے، البتہ بعض علماء اس طرف بھی گئے ہیں کہ کلی اور ناک کے لیے علیحدہ علیحدہ دو چلو بھی لینا جائز ہے لیکن ایک چلو سے کلی اور ناک صاف کرنے والی روایات سند کے لحاظ سے زیادہ قوی اور مستند ہیں۔ «والله اعلم»
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 139   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 47  
´کلی اور ناک کے لیے الگ الگ پانی لینا`
«. . . رايت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يفصل بين المضمضة والاستنشاق . . .»
. . . میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بچشم خود دیکھا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کلی اور ناک کے لئے الگ الگ پانی لیتے تھے . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 47]
لغوی تشریح:
«يَفْصِلُ» فرق کرتے تھے، یعنی آپ کلی کرنے کے لیے الگ پانی لیتے تھے اور ناک میں پانی چڑھانے کے لیے الگ لیتے تھے۔

فائدہ:
اس حدیث سے کلی اور ناک کے لیے الگ الگ پانی لینا ثابت ہوتا ہے۔ لیکن یہ روایت سند کے اعتبار سے ضعیف ہے، کیونکہ اس کی سند میں مصرف بن کعب مجہول اور لیث بن ابی سلیم راوی ضعیف ہے۔ اس کے برعکس صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی احادیث میں یہ مذکور ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی چلو سے ناک میں بھی پانی چڑھا لیتے اور کلی بھی کر لیتے تھے۔

راوی حدیث:
SR طلحہ بن مصرف رحمه الله ER ان کی کنیت ابومحمد یا ابوعبد اللہ ہے۔ مصرف کا اعراب میم کے ضمہ اور را کے کسرہ اور تشدید کے ساتھ ہے۔ ثقہ اور جلیل القدر تابعین میں شمار کئے گئے ہیں۔ طبقہ خامسہ میں سے ہیں۔ بہترین قاری اور فاضل شخصیت تھے۔ 112ھ میں وفات پائی۔ البتہ ان کا والد مصرف مجہول الحال ہے، اسی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے۔
«عَنْ جَدِّهِ» ان کا نام کعب بن عمرو یا عمرو بن کعب بن جحدب یامی رضی اللہ عنہ ہے۔ یمن کے قبائل ہمدان میں مشہور ومعروف قبیلہ یام کی جانب منسوب ہونے کی بنا پر یامی کہلاتے ہیں۔ ابن عبدالبر کے قول کے مطابق انہوں نے کوفہ میں سکونت اختیار کر لی تھی۔ صحابی ہیں۔ کچھ لوگوں نے ان کی صحابیت کا انکار کیا ہے لیکن انکار کرنے والوں کے انکار کی کوئی وجہ نہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 47