مطلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز دو دو رکعت ہے، اس طرح کہ تم ہر دو رکعت کے بعد تشہد پڑھو اور پھر اپنی محتاجی اور فقر و فاقہ ظاہر کرو اور دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگو اور کہو: اے اللہ! اے اللہ!، جس نے ایسا نہیں کیا یعنی دل نہ لگایا، اور اپنی محتاجی اور فقر و فاقہ کا اظہار نہ کیا تو اس کی نماز ناقص ہے“۔ ابوداؤد سے رات کی نماز دو دو رکعت ہونے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا: چاہو تو دو دو پڑھو اور چاہو تو چار چار۔ [سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1296]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 172 (1325)، (تحفة الأشراف: 11288)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/167) (ضعیف)» (اس کے راوی عبد اللہ بن نافع مجہول ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ابن ماجه (1325) عبد اللّٰه بن نافع بن العمياء ضعفه البخاري والجمهور وضعفه راجح وقال ابن حجر : مجهول (تقريب التهذيب:3658) وفي سماعه من عبد اللّٰه بن الحارث نظر انوار الصحيفه، صفحه نمبر 54
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، سنن ابوداود 1296
فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ دیکھئے: [هدية المسلمين 54 ح22]
سیدنا عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب جس روایت سے نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کا استدلال کیا جاتا ہے۔ روایت مذکورہ کے لئے دیکھئے: [المعجم الكبير / قطعه من الجزء ج21 ص37 ح90] اس کی سند فضیل بن سلیمان النمیری «ضعيف عند الجمهور» کے ضعف کی وجہ سے ضعیف ہے۔
تنبیہ:
اس راوی کی صحیحین مں تمام روایات صحیح ہیں۔ سرفراز خان صفدر کے بیٹے عبدالقدوس دیو بندی نے لکھا ہے: ”جن کتب میں صحت کا التزام کیا گیا ہے ان میں راوی کی حیثیت اور ہے اگر وہی راوی کسی دوسری جگہ آ جائے تو اس کی حیثیت اور ہو گی۔“[مجذدبانه واويلا ص247]
دیو بندی مفتی رشید احمد لدھیانوی نے لکھا ہے: ”نماز کے بعد اجتماعی دعاء کا مروجہ طریقہ بالا جماع بدعت قبیحہ شنیعہ ہے۔“[نمازوں كے بعد دعاء ص19، احسن الفتاويٰ ج10]
… اصل مضمون …
فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام) ج2 ص77
فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)، حدیث/صفحہ نمبر: 77
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1296
1296۔ اردو حاشیہ: ملحوظہ: یہ حدیث تو ضعیف ہے مگر چار رکعات پڑھنے کا ذکر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں موجود ہے جس میں رمضان کی رات کی نماز کا سوال کیا گیا تھا۔ دیکھیے: [صحيح بخاري: 1147] لیکن دوسری روایات میں صراحت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز (نماز تہجد) دو دو رکعت ہوا کرتی تھی، سوائے وتر کے، اس لیے آپ کا زیادہ عمل دو دو کر کے ہی پڑھنے کا تھا نہ کہ چار چار کر کے پڑھنے کا۔ صرف بیان جواز کے لیے آپ نے بعض دفعہ چار چار کر کے پڑھی ہیں۔ بنابریں نوافل دو دو کر کے پڑھنا ہی زیادہ بہتر ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: [فتح البار ي: 2/618، أوائل كتاب الوتر، حديث: 990۔ 992]
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1296
اردو فتاویٰ، سنن ابی داود 1296
نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا سوال: نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کو بدعت کہا گیا ہے، لیکن خوب تلاش کے بعد مجھے اس موضوع پر درج ذیل احادیث ملی ہیں:
➊ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو کوئی بندہ اپنے دونوں ہتھیلیاں ہر نماز کے بعد پھیلا کر کہے: ”یا اللہ! یا الہی! اے ابراہیم، اسحاق، یعقو ب کے الہ، اے جبریل، میکائیل اور اسرافیل کے الہ، میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ میری دعا قبول فرما، میں بہت لاچار ہوں، مجھے میرے دین کے بارے میں تحفظ عطا فرما، بیشک میں آزمائش میں مبتلا ہوں، مجھے اپنی رحمت میں ڈھانپ دے، کیونکہ میں بہت گناہگار ہوں، میری غربت مجھ سے مٹا دے کیونکہ میں بہت ہی مسکین ہوں ”تو اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ اس کے ہاتھوں کو خالی مت لوٹائے) اس روایت کو ابن سنی نے ”عمل الیوم واللیلہ ”صفحہ: (38) میں ذکر کیا ہے۔
➋ عبداللہ بن زیبر رضی اللہ عنہماسے مروی ہے کہ ایک آدمی نے اپنی نماز مکمل ہونے سے پہلے دعا کے لیے دونوں ہاتھ اٹھا لیے، چنانچہ جب وہ نماز سے فارغ ہو گیا تو اسے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے کہا: ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فراغت پانے سے پہلے دعا کے لیے ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے ”
اس روایت کو طبرانی نے معجم میں بیان کیا ہے، اور ہیثمی نے مجمع الزوائد میں اسے صحیح کہا ہے۔
➌ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سے سلام پھیرنے کے بعد اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے، آپ اس وقت قبلہ رخ تھے، آپ نے فرمایا: (یا اللہ! کمزور مسلمانوں کو مشرکوں کی قید سے آزاد فرما) یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی سے ملتے جلتے الفاظ کہے تھے۔
اس روایت کو ابن ابی حاتم اور ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں نے ذکر کیا ہے۔
➍ ابووداعہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (رات کی نماز دو، دو رکعت ہے، ہر دو رکعتوں میں تشہد بیٹھو، اپنی مسکینی، اور تنگی کا اظہار ہاتھ اٹھا کر کرو، اور کہو: یا اللہ! مجھے بخش دے، جو شخص ایسانہیں کریگا، اس کی نماز ناقص ہے) سنن ابوداود، سنن ابن ماجہ
ان احادیث کے بارے میں آپکی کیا رائے ہے؟ جواب کا متن
الحمد للہ۔
سوال میں ذکر شدہ کسی بھی حدیث کی سند ثابت نہیں ہے، اس کا تفصیلی بیان یہ ہے:
➊ پہلی حدیث: جسے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بیان کیا گیا ہے۔
اسے ابن سنی نے ”عمل الیوم واللیلہ ”صفحہ: 137 میں بیان کیا ہے، وہ کہتے ہیں مجھے احمد بن حسن بن ادیبویہ نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں ہمیں ابویعقو ب اسحاق بن خالد بن یزید بالسی نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں ہمیں عبد العزیز بن عبد الرحمن بالسی نے انہوں نے خصیف سے، اور انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے یہ روایت بیان کی۔
اور یہ روایت انتہائی ضعیف ہے، جس کی وجہ عبد العزیز بن عبد الرحمن ہے، اس کے بارے میں ائمہ کرام کے اقوال درج ذیل ہیں:
امام احمد: ”اس کی احادیث مٹا دو، یہ سب جھوٹ ہیں ”یا انہوں نے کہا: ”خود ساختہ ہیں ”
ابن حبان: ”اسے کسی صورت میں بھی حجت نہیں بنایا جا سکتا ”
مزید کے لیے دیکھیں: [”العلل 5419 اسي طرح: ”لسان الميزان 5267]
➋ دوسری حدیث: جسے عبداللہ بن زیبر سے روایت کیا گیا ہے
اسے طبرانی نے ”معجم الکبیر“(14/266) میں روایت کیا ہے، اس کی سند یہ ہے: ہمیں حدیث بیان کی سلیمان بن حسن عطار نے، وہ کہتے ہیں ہمیں حدیث بیان کی ابوکامل جحدری نے، وہ کہتے ہیں ہمیں حدیث بیان کی فضیل بن سلیمان نے وہ کہتے ہیں کہ ہمیں حدیث بیان کی محمد بن ابی یحیی۔۔۔
یہ سند بھی دو وجوہات کی بنا پر ضعیف ہے:
1- محمد بن ابی یحیی اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے درمیان انقطاع ہے، کیونکہ غالب گمان یہی ہے کہ محمد نے ابن زبیر سے سنا ہی نہیں ہے اس لیے کہ محمد بن ابی یحیی کی وفات 144 ھ میں ہے، اور عبداللہ بن زبیر کی وفات 72 ھ میں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ”التهذيب“(5/310) میں یہ کہا ہے کہ: محمد بن ابی یحیی کی ایک روایت کی نسبت عبداللہ بن زبیر یا کسی اور صحابی سے کی جاتی ہے، پھر ابن حجر نے یہ بالجزم کہا ہے کہ محمد بن ابی یحیی تابعین سے ہی روایت کرتا ہے، پھر کچھ تابعین کے نام ذکر بھی کیے۔
اس سے یہ بات مزید پختہ ہو جاتی ہے کہ سند میں انقطاع ہے، اور کچھ راویوں نے درمیان میں سے راوی کو گرا دیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ شیخ بکر ابوزید رحمہ اللہ کہتے ہیں:
اس حدیث کی سند میں محمد بن ابی یحیی اسلمی اور عبداللہ بن زبیر کے درمیان انقطاع ہے انتہی [تصحيح الدعاء ص/440]
2- فضیل بن سلیمان کو بہت سے ائمہ کرام نے ضعیف قرار دیا ہے، مثلاًً: ابن معین، عبد الرحمن بن مہدی، نسائی، اور دیگر ائمہ کرام۔
ان کی گفتگو جاننے کے لیے دیکھیں: ”تهذيب التهذيب“(4/481)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ”تقريب التهذيب“(5462) میں علمائے کرام کی گفتگو کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے اسے ضعیف ہی لکھا ہے، چنانچہ کہا: «صدوق له خطأ كثير» یہ راوی صدوق ہے لیکن اس کی غلطیاں بہت زیادہ ہیں۔ [انتهي]
اور فضیل بھی سلیمان کی کچھ روایات کو امام بخاری رحمہ اللہ کی جانب سے اپنی صحیح میں جگہ دینا، اس کے ثقہ ہونے کی دلیل نہیں ہے، کیونکہ امام بخاری رحمہ اللہ اس کی روایات کو خوب چھان پھٹک کر، دیگر روایوں کی طرف سے شواہد کی موجودگی میں قبول کرتے تھے۔
دیکھیں: [”منهج الإمام البخاري فى تصحيح الأحاديث وتعليليها ”از: ابوبكر كافي ص/154]
➌ تیسری حدیث:
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سے سلام پھیرنے کے بعد اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے، آپ اس وقت قبلہ رخ تھے، پھر آپ نے فرمایا: (یا اللہ! ولید بن ولید، عیاش بن ابی ربیعہ، سلمہ بن ہشام، اور لاچار کمزور مسلمانوں کو مشرکین کے چنگل سے آزاد فرما۔)
اس روایت کو ابن ابی حاتم نے اپنی تفسیر: (3/1048) میں اس سند کے ساتھ نقل کیا ہے: ابن ابی حاتم کہتے ہیں مجھے میرے والد نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں مجھے ابومعمر المنقری نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ مجھے عبد الوارث نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں مجھے علی بن زید نے بیان کیا، انہوں نے سعید بن مسیب سے اور انہوں نے ابوہریرہ سے یہ روایت نقل کی۔
شیخ بکر ابوزید رحمہ اللہ کہتے ہیں:
اس حدیث کا مرکزی راوی علی بن زید بن جدعان ہے، جس کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف ہے، اور اگر اس حدیث کو صحیح مان بھی لیا جائے تو یہ ایک وقتی اور عارضی عمل تھا، آپکا مستقل طریقہ کار نہیں تھا، (یہ بات واضح ہے کہ) دونوں میں فرق ہوتا ہے انتہی [تصحيح الدعاء ص/443]
➍ چوتھی حدیث:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (رات کی نماز دو، دو رکعت ہے، ہر دو رکعتوں میں تشہد بیٹھو، اپنی مسکینی، اور تنگی کا اظہار ہاتھ اٹھا کر کرو، اور کہو: یا اللہ! مجھے بخش دے، جو شخص ایسانہیں کریگا، اس کی نماز ناقص ہے۔)[سنن ابوداود 1296]
حدیث کی سند ضعیف ہے، اس میں عبداللہ بن نافع راوی ہے، جس کے بارے میں علی بن مدینی کہتے ہیں: ”یہ راوی مجہول ہے ”
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تقریب التہذیب (3682) میں بھی یہی کہا ہے۔
اسی راوی کی وجہ سے البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ضعیف ابوداود میں ضعیف قرار دیا ہے۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیں: ضعیف ابوداود – اصل (اصل سے مراد ”الام“ہے۔)[2/52]
مندرجہ بالا تفصیل سے واضح ہو گیا کہ سوال میں ذکر کردہ احادیث ثابت نہیں ہیں، اور اگر ان میں سے کسی حدیث کو صحیح مان بھی لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض نمازوں کے بعد دعا عارضی اور وقتی ضرورت کی وجہ سے فرمائی تھی، آپ مستقل طور پر ہر نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا نہیں فرماتے تھے۔
واللہ اعلم۔
۔۔۔ اصل مضمون۔۔۔
اسلام کیو اے
اسلام کیو اے، حدیث/صفحہ نمبر: 999
اردو فتاویٰ، سنن ابی داود 1296
ہمارے زمانے کے علمائے اہل حدیث اس بارے میں مختلف ہیں، بعض کہتے ہیں کہ چونکہ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی ہو اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس پر آمین کہی ہو، جیسا کہ آج کل عام رواج ہے۔ لہٰذا ان علمائے کرام کے نزدیک فرضوں کے بعد مروجہ دعا کا طریق بدعت ہے، جیسا کہ امام ابن القیم نے بھی لکھا ہے: «اما الدعاء بعد السلام مستقبل القبلة او المامومين فلم يكن ذلك من هدية صلى الله عليه وسلم اصلا ولا روي عنه باسناد صحيح ولاحسن وعامة الادعية المتعلقة بالصلوة إنما فعلها وأمر بها فيها وهذا هواللائق بحال المصلي فإنه مقبل على ربه يناجيه مادام فى الصلوة .»[إنتهي ملخصا من زادالمعاد ص257 ج1 بحث الدعاء بعد السلام من الصلوة] ”فرضوں کے بعد قبلہ رخ ہو کر یا نمازیوں کے طرف منہ کر کے دعا مانگنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بالکل ثابت نہیں ہے۔ صحیح حدیث کے ساتھ اور نہ حسن حدیث کے ساتھ۔ کیونکہ اکثر متعدد دعائیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے اندر ہی مانگی ہیں اور نماز کے اندر ہی ان دعاؤں کے مانگنے کا حکم دیا ہے۔ اس لیے نمازی نماز کی حالت میں اللہ کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ اور اپنے اللہ سے مناجات کرتا ہے۔
لیکن دوسرے علماء اس دعا کے جواز کے قائل ہیں اور مندرجہ ذیل احادیث سے استدلال کرتے ہیں:
➊ «عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: ”مَا مِنْ عَبْدٍ بَسَطَ كَفَّيْهِ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ، ثُمَّ يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِلَهِي وَإِلَهَ إِبْرَاهِيمَ، وَإِسْحَاقَ، وَيَعْقُو بَ، وَإِلَهَ جَبْرَائِيلَ، وَمِيكَائِيلَ، وَإِسْرَافِيلَ عَلَيْهِمُ السَّلَامُ، أَسْأَلُكَ أَنْ تَسْتَجِيبَ دَعْوَتِى، فَإِنِّى مُضْطَرٌّ، وَتَعْصِمَنِى فِي دِينِى فَإِنِّى مُبْتَلًى، وَتَنَالَنِى بِرَحْمَتِكَ فَإِنِّى مُذْنِبٌ، وَتَنْفِيَ عَنِّى الْفَقْرَ فَإِنِّى مُتَمَسْكِنٌ، إِلَّا كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ لَا يَرُدَّ يَدَيْه خَائِبَتَيْنِ أخرجه الحافظ والليلي قلت فى سنده عبدالعزيز بن عبدالرحمان القرشي قال فى الميزان إتهمه احمد وقال النسائي وغيره ليس بثقة .»[تحفة الاحوذي: ص246ج1 باب ما يقول اذاسلم]
حضرت انس سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص ہر نماز کے بعد ہاتھ پھیلا کر یہ دعا پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھوں کو ناکام نہیں لوٹاتا۔ اس حدیث کا ایک راوی عبدالعزیز بن عبدالرحمان جو سخت مجروح ہے، مولانا مبارک پوری رحمہ الله نے میزان الاعتدال سے بہت سے ائمہ حدیث کی اس پر سب جرحیں نقل فرمائی ہیں کسی ایک نے بھی توثیق نہیں کی ہے۔ علاوہ اس کے کہ ایسے مجروح راوی کی روایت کسی درجے میں بھی قبول نہیں کی جا سکتی۔ سوال میں مذکور طریق کا اس میں بھی ذکر نہیں۔ (ع، ح)
➋ «عن محمد يحيي السلمي (تقريب اور تهذيب ميں اسلمی ہے . ع)، حقال رَأَيْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ الزُّبَيْرِ وَرَأَى رَجُلًا رَافِعًا يَدَيْهِ قَبْلَ أَنْ يَفْرُغَ مِنْ صَلَاته، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْهَا، قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ حَتَّى يَفْرُغَ مِنْ صَلَاتِهِ» «ذكر ه الحافظ الهيثمي فى مجمع الزوائد قال ورواه الطبراني وترجم له فقال محمد بن يحيي السلمي عن عبدالله بن الزبير ورجاله ثقات .»[تحفة الاحوذي: ص245ج1] ”محمد بن یحییٰ السلمی کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے ایک آدمی کو نماز میں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے ہوئے دیکھا جب وہ فارغ ہوا تو حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بھائی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو نماز سے فارغ ہو کر دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے تھے۔“
➌ «عن ابي بكرة رضى الله عنه ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قا ل سلوا الله بِبُطُونِ أَكُفِّكُمْ، وَلَا تَسْأَلُوهُ بِظُهُورِهَا .»[رواه الطبراني فى الكبير ورجالة رجال الصحيح غير عماد بن خلد الواسطي وهو ثقة۔ مجمع الزوائد ص129، 130 كنز العمان: ص175ج1] ”حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے سیدھے ہاتھوں کے ساتھ دعا مانگا کرو اور الٹے ہاتھوں سے نہ مانگو۔“
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ امام اور مقتدی فرض نمازوں کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگ سکتے ہیں اور اس کو بدعت کہنا صحیح معلوم نہیں ہوتا ہے۔ تاہم اس کا التزام اور اس پر ہمیشگی بدعت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس دعا التزام ضعیف حدیث سے بھی ثابت نہیں۔ مذکورہ احادیث بھی چونکہ کچھ ضعیف ہی ہیں، اس لیے ان سے استحباب ثابت ہوتا ہے۔ جیسے کہ ملا علی قاری فرماتے ہیں۔ «ألاستحباب يثبت بالضعيف لا بالموضوع .» ہمارے حنفی بھائی اس دعا کو لازم سمجھے بیٹھے ہیں حالانکہ خود امام ابوحنیفہ رحمہ الله اور حنفی فقہاء کے نزدیک فرضوں کے بعد مروجہ دعا مانگنا کوئی ضروری نہیں۔ جیسے البحرالرائق میں ہے: «وَلَمْ يَذْكُرْ الْمُصَنِّفُ مَا يَفْعَلُهُ بَعْدَ السَّلَامِ وَقَدْ قَالُوا: إنْ كَانَ إمَامًا وَكَانَتْ صَلَاةً يُتَنَفَّلُ بَعْدَهَا فَإِنَّهُ يَقُومُ وَيَتَحَوَّلُ من مكانه يمينه او يساره او خلفه والجلوس مستقبلا بدعة .»[تحفة الاحوذي: ص247ج1] ”اور نہیں ذکر کیا مصنف نے کہ امام سلام کے بعد کیا کرے۔ تاہم فقہاء کا خیال ہے جس نماز کے بعد نفل ہوں ان میں امام کھڑا ہو جائے اور دائیں بائیں پھر جائے اور قبلہ رخ بیٹھ رہنا بدعت ہے۔“ «هذا ما عندي والله أعلم بالصواب»
۔۔۔ اصل مضمون۔۔۔
فتاویٰ محمدیہ ج1ص368