الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابي داود
تفرح أبواب الجمعة
ابواب: جمعہ المبارک کے احکام ومسائل
239. باب إِذَا دَخَلَ الرَّجُلُ وَالإِمَامُ يَخْطُبُ
239. باب: امام خطبہ دے رہا ہو اور آدمی مسجد میں داخل ہو تو کیا کرے؟
حدیث نمبر: 1117
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ الْوَلِيدِ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ طَلْحَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يُحَدِّثُ، أَنَّ سُلَيْكًا جَاءَ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ، زَادَ: ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ، قَالَ:" إِذَا جَاءَ أَحَدُكُمْ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ فَلْيُصَلِّ رَكْعَتَيْنِ يَتَجَوَّزْ فِيهِمَا".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ سلیک رضی اللہ عنہ آئے، پھر راوی نے اسی طرح کی حدیث ذکر کی اور اتنا اضافہ کیا کہ پھر آپ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص آئے اور امام خطبہ دے رہا ہو تو دو ہلکی رکعتیں پڑھ لے ۱؎۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1117]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 2339)، مسند احمد (3/297) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اس ٹکڑے سے ان لوگوں کے قول کی تردید ہوتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ یہ حکم سلیک غطفانی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص تھا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ حکم اس لئے دیا تھا کہ لوگ ان کی خستہ حالت دیکھ کر ان کا تعاون کریں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
انظر الحديث السابق (1117)

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 1117 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1117  
1117۔ اردو حاشیہ:
➊ قبل از خطبہ جمعہ نوافل کی کوئی تعداد مقرر نہیں ہے۔ کم از کم دو رکعت تحیۃ المسجد لازماًً پڑھنی چاہیے۔ یہ نہایت موکد ہے، حتیٰ کہ اگر امام خطبہ دے رہا ہو تو بھی مختصر سی دو رکعت پڑھ کر بیٹھے الا یہ کہ خطبہ فوت ہو جائے تو جماعت میں شامل ہو جائے۔
➋ امام اثنائے خطبہ میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دے۔ اور لوگوں کو شریعت کے مسائل سے آگاہ کرے۔ مگر جس بات کی تفصیل معلوم نہ ہو تو پہلے معلوم کر لے تو پھر حکم دے جیسے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے دریافت فرمایا کہ کیا تم نے نماز پڑھی ہے؟
➌ اس حدیث سے یہ استدلال بھی کیا جاتا ہے کہ تحیۃ المسجد ممنوع اوقات میں بھی پڑھی جائے، کسی وقت ترک نہ کی جائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1117