جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن جب منبر پر اچھی طرح سے بیٹھ گئے تو آپ نے لوگوں سے فرمایا: ”بیٹھ جاؤ“، تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے (جو اس وقت مسجد کے دروازے پر تھے) اسے سنا تو وہ مسجد کے دروازے ہی پر بیٹھ گئے، تو انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو فرمایا: ”عبداللہ بن مسعود! تم آ جاؤ“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث مرسلاً معروف ہے کیونکہ اسے لوگوں نے عطاء سے، عطاء نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے، اور مخلد شیخ ہیں، (یعنی مراتب تعدیل کے پانچویں درجہ پر ہیں جن کی روایتیں ”حسن“ سے نیچے ہی ہوتی ہیں، الا یہ کہ ان کا کوئی متابع موافق ہو)[سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1091]
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1091
1091۔ اردو حاشیہ: ➊ خطیب کو حق حاصل ہے کہ سامعین سے حسب ضرورت کوئی بات کر سکتا ہے اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی تعمیل ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی کیفیت دیکھیے کہ حکم سنتے ہی بیٹھ گئے اور قدم تک نہیں بڑھایا۔ اس قسم کے لوگوں پر زبان طعن دراز کرنا کہ یہ لوگ بعد از وفات نبی صلی اللہ علیہ وسلم (نعوذ باللہ) مرتد ہو گئے تھے یا منافق بن گئے تھے اپنے خبث باطن کے اظہار کے علاوہ کچھ نہیں۔ ➋ احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خطبے کے دوران سامعین کو آپس میں گفتگو کرنے کی اجازت نہیں ہے، مگر خطیب بات کر سکتا ہے۔ ➌ یہ حدیث اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی فوراً بلاتاخیر تعمیل ضروری ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1091