عطاء کہتے ہیں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں جمعہ اور عید دونوں ایک ہی دن اکٹھا ہو گئے تو آپ نے کہا: ایک ہی دن میں دونوں عیدیں اکٹھا ہو گئی ہیں، پھر آپ نے دونوں کو ملا کر صبح کے وقت صرف دو رکعت پڑھ لی، اس سے زیادہ نہیں پڑھی یہاں تک کہ عصر پڑھی ۱؎۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1072]
وضاحت: ۱؎: دراصل عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما گھر سے نکلے ہی نہیں (جیسا کہ اگلی حدیث میں ہے) اس سے لوگوں نے یہ سمجھا کہ انہوں نے ظہر بھی نہیں پڑھی، حالانکہ ایسی بات نہیں، آپ نے گھر میں ظہر پڑھ لی تھی، کیونکہ عید کے دن جمعہ معاف ہے ظہر نہیں۔ یہ اسلام کا عام قاعدہ ہے کہ جس سے جمعہ کی فرضیت ساقط ہے اس کے لئے ظہر پڑھنی ضروری ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح أخرجه الفريابي في العيدين (رقم: 153، نسخه أخريٰ: ص 219، وسنده صحيح) ولفظه: ’’ اجتمع يوم فطر ويوم جمعة زمن ابن الزبير فصلي ركعتين…‘‘، ابن جريج عن عطاء قوي
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1072
1072۔ اردو حاشیہ: حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اس رخصت کو عوام اور امام سب کے لئے ہی عام سمجھا ہے۔ علاوہ ازیں اس وقت سے بظاہر یہ معلوم ہو رہا ہے کہ حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے نماز عید کے بعد پھر ظہر کی نماز نہیں پڑھی بلکہ صرف عصر کی نماز پڑھی۔ لیکن صاحب سبل السلام نے یہ کہا ہے کہ یہ روایت ظہر کے نہ پڑھنے میں نص قاطع نہیں ہے کیونکہ یہ ممکن ہے کہ انہوں نے نماز ظہر گھر ہی میں ادا کر لی ہو۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1072