847 - وأنا ابْنُ السِّمْسَارِ، نا أَبُو زَيْدٍ، أنا الْفَرَبْرِيُّ، أنا الْبُخَارِيُّ، نا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، نا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، نا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنِي سُفْيَانُ، حَدَّثَنِي مَنْصُورٌ، بِإِسْنَادِهِ مِثْلَهُ
اسے منصور نے بھی اپنی سند کے ساتھ اسی طرح بیان کیا ہے۔ [مسند الشهاب/حدیث: 847]
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه بخاري: 2783، مسلم: 1353، وترمذي: 1590، وأبو داود: 2480، والنسائي: 4175، وابن ماجه: 2773 وأحمد فى «مسنده» برقم: 2016»
وضاحت: تشریح: - ”فتح کے بعد ہجرت نہیں۔“ مطلب یہ ہے کہ فتح مکہ کے بعد مکہ سے ہجرت نہیں ہے، کیونکہ ملک اب دارالاسلام بن چکا ہے لہٰذا اب وہاں سے ہجرت کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، باقی جہاں تک دارالکفر اور دارالحرب سے دارالاسلام کی طرف ہجرت کا تعلق ہے تو وہ اب بھی باقی ہے بلکہ ایسی ہجرت تو قیامت تک باقی ہے۔ ”جہاد اور نیت باقی ہے۔“ یعنی جہاد کرنا اور اعمال میں حسن نیت اور اس کا اجر اب بھی باقی ہے۔ مکہ یا مسلمانوں کے کسی دوسرے علاقے پر اگر کفار حملہ آور ہوں تو ان کے خلاف جہاد کرنا اور اللہ تعالیٰ ٰ سے اجر کی نیت رکھنا اب بھی باقی ہے۔ ”اور جب تمہیں جہاد پر نکلنے کے لیے کہا: جائے تو نکل پڑو۔“ یعنی جب امام جہاد کے لیے نکلنے کا حکم دے تو پھر تعمیل حکم میں دیر نہ کرو بلکہ جیسے بھی ہونکل پڑو، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ٰ ہے: ﴿انفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالًا وَجَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴾ (التوبة: 41) ”نکلو ہلکے اور بوجھل اور اپنی جانوں اور مالوں کے ذریعے اللہ کی راہ میں جہاد کرو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔“ اہل علم کہتے ہیں کہ جب امام جہاد کے لیے نکلنے کا حکم دے تو ہر اس شخص پر نکلنا واجب ہو جاتا ہے جسے امام نے حکم دیا ہو، چاہے اس پر نکلنا ہلکا ہو یا بھاری۔