1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


مسند الشهاب
احادیث401 سے 600
318. مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ وَالِدَةٍ وَوَلَدِهَا فَرَّقَ اللَّهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَحِبَّتِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ
318. جس نے ماں اور اس کے بچے کے درمیان تفریق ڈالی اللہ قیامت کے دن اس کے اور اس کے عزیزوں کے درمیان تفریق ڈالے گا
حدیث نمبر: 456
456 - أَخْبَرَنَا أَبُو الْقَاسِمِ، خَلَفُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْمُقْرِي أنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ الْوَرْدِ، ثنا أَبُو يَزِيدَ الْقَرَاطِيسِيُّ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْحَكَمِ، أبنا ابْنُ وَهْبٍ عَنْ حُيَيِّ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمَعَافِرِيُّ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ سَمِعْتُ، رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ وَالِدَةٍ وَوَلَدِهَا فَرَّقَ اللَّهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَحِبَّتِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ»
سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: جس نے ماں اور اس کے بچے کے درمیان تفریق ڈالی اللہ قیامت کے دن اس کے اور اس کے عزیزوں کے درمیان تفریق ڈالے گا۔ [مسند الشهاب/حدیث: 456]
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، وأخرجه الحاكم فى «مستدركه» برقم: 2347، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1283، 1566، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2479، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 18377، وأحمد فى «مسنده» برقم: 23982، 23996، والطبراني فى «الكبير» برقم: 4080»

وضاحت: تشریح: -
اس حدیث مبارک میں صلہ رحمی کا درس دیا گیا ہے کہ اولاد کو والدین سے اور والدین کو اولاد سے دور نہ کیا جائے۔ پرانے دور میں ایسا ہوتا رہا ہے کہ غلام اور لونڈیوں کی خرید و فروخت کے وقت ان کے نابالغ بچوں کو ان سے جدا کر دیا جاتا، جدا جدا جگہ اور الگ الگ آدمیوں کے ہاتھوں فروخت کیا جاتا، اسی طرح کبھی والدین کو تو فروخت کر دیا جاتا یا ہبہ کر دیا جاتا اور ان کے بچوں کو مالک اپنے پاس روک لیتا یا بچے کو کسی کے ہاتھ فروخت کر دیتا یا ہبہ کر دیتا لیکن اس کے والدین کو اپنے پاس روک لیتا، اسلام نے اس سے منع کیا ہے اور بتایا ہے کہ جو شخص ایسا کرے گا وہ قیامت کے دن جب ساری مخلوق اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ جمع ہوگی اللہ تعالیٰ ٰ اسے اس کے عزیز واقارب مثلاً ماں باپ یا اولاد وغیرہ سے جدا کر دے گا۔
حدیث مبارک میں ماں کا ذکر اس لیے آیا ہے کہ عموماً ماؤں ہی کے ساتھ اس طرح کا سلوک ہوتا رہا ہے اور اس لیے بھی کہ ایک ماں اپنے نابالغ بچے اور نابالغ بچے کو اپنے ماں سے بچھڑنے کا جو غم اور صدمہ ہوتا ہے، باپ کو وہ بہر حال نہیں ہوتا، تاہم اس حکم میں باپ بھی شامل ہے۔ آج کے جدید دور میں بھی اس سے ملتی جلتی صورت موجود ہے، عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ خاوند اور بیوی میں طلاق ہو جائے تو بچے اگر خاوند کے پاس ہوں تو وہ انہیں ان کی ماں سے نہیں ملنے دیتا اور اگر ماں کے پاس ہوں تو وہ انہیں باپ سے نہیں ملنے دیتی، یوں اولاد کو والدین اور والدین کو اولاد کے سلسلے میں صدمہ اور تکلیف پہنچائی جاتی ہے، حالانکہ قرآن کا صاف حکم ہے:
﴿لَا تُضَارَّ وَالِدَةٌ بِوَلَدِهَا وَلَا مَوْلُودٌ لَّهُ بِوَلَدِهِ﴾ (البقرة: 233)
نہ ماں کو اس کے بچے کی وجہ سے اور نہ باپ کو اس کے بچے کی وجہ سے ستایا جائے۔
اہل علم کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ جانوروں میں بھی اگرچہ جدائی ڈالنے کی ممانعت تو نہیں، تاہم جہاں تک ممکن ہو ان میں جدائی ڈالنے سے بچا جائے خصوصاً جب کسی جانور کا بچہ بالکل چھوٹا ہو۔ واللہ اعلم