قرظی کہتے ہیں کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، ابوسعید خدری اور معاویہ رضی اللہ عنہم اکٹھے ہوئے تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: تم میں سے جو چاہے وہ کوئی ایسی حدیث بیان کرنے سے آغاز کرے جسے اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہو، اس کے کانوں نے وہ حدیث سنی ہو، دل نے محفوظ رکھی ہو۔ وہ دونوں (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ) کہنے لگے: ابتدٱ آپ کیجیے، آپ ہمیں وہ حدیث بیان کریں جو آپ نے یاد رکھی ہو۔ انہوں نے کہا: میں ایسا کرتا ہوں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ”مجھے چھ چیزوں کی ضمانت دے دو میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں: جب بات کرو تو جھوٹ نہ بولو، وعدہ کرو تو خلاف ورزی نہ کرو، جب امانت پکڑو تو خیانت نہ کرو اور اپنی نظروں کو جھکا کر رکھو، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو اور اپنے ہاتھ (ظلم سے) روک لو۔“ پھر سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ کہنے لگے: اے ابوہریرہ! اب آپ بیان کیجیے تو انہوں نے کہا: میں نے سیدنا ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: تین قسم کے لوگوں کو اس حال میں اللہ کے سامنے پیش کیا جائے گا کہ ان کے ہاتھ ان کی گردنوں سے بندھے ہوئے ہوں گے: حاکم، قاضی اور سردار۔ انہیں (اس کیفیت سے) ان کا عدل ہی رہائی دلا سکے گا اور ان میں سے جس نے ظلم کیا ہوگا وہ جہنم میں سب سے زیادہ سخت آگ اور سب سے زیادہ گہرائی میں ہوگا۔“ (پھر) سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: کہ میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ”زمین اتنا کبھی نہیں تھر تھراتی جتنازناکاری کے غسل جنابت یا ناحق قتل سے تھر تھراتی ہے اور جو شخص حرام ذرائع سے مال حاصل کرے اللہ اسے لوگوں کی حق تلفیوں میں اس سے ضائع کرا دیتا ہے اور جو شخص صبح یا شام دنیا داروں کے پاس حصول دنیا کے لیے جائے وہ اسے حاصل تو کر لیتا ہے لیکن (حقیقت میں) وہ ان لوگوں میں سے ہے جنہوں نے اللہ کی آیات کا مذاق اڑایا اور جو شخص کسی حاکم کے پاس جا کر اس کی خواہش کے مطابق خلاف حق گفتگو کرے تو وہ جہنم میں اس کا ساتھی ہوگا اور جوشخص حاکم کے پاس اپنے بھائی کی چغلی کھائے اللہ قیامت کے دن اس پر اپنی رحمت حرام کر دے گا۔“ یہ سن کر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے آپ کو چار پائی سے نیچے گرا دیا، لوگ اٹھ کر چلے گئے تو آپ اپنی ہمشیرہ ام المؤمنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے پاس چلے گئے اور جا کر ان سے شکوہ کیا کہ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جان بوجھ کر مجھے ایسی سخت حدیثیں سنائی ہیں جن سے مجھے شدید ذہنی صدمہ پہنچاہے، تو سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہانے فرمایا: اللہ کی قسم! میں تو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سے بھی زیادہ سن چکی ہوں جس کا ابوہریرہ نے ذکر نہیں کیا۔ معاویہ نے دریافت کیا: وہ کیا؟ فرمایا: ”جس نے کوئی اچھا عمل کیا تو وہ اسی کے لیے ہے اور جس نے کوئی برا عمل کیا تو وہ بھی اسی کے لیے ہے۔“ سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ کی بیان کردہ اس حدیث کے بعد کون ہے جو حکمرانی، قضاء اور سرداری (جیسے عہدوں) کو پسند کرے؟ فرمایا: ”اللہ کے بندوں میں سے بدترین لوگ وہ ہیں جو یوں کہتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں ہی دے دے اور ان کے لیے آخرت میں کچھ نہیں۔“[مسند الشهاب/حدیث: 443]
تخریج الحدیث: إسناده ضعیف، موسیٰ بن عبیدہ ربذی اور عمر و بن بکر ضعیف ہیں