1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


مسند الشهاب
احادیث 1 سے 200
29. مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ، وَمَسْأَلَةُ الْغَنِيِّ شَيْنٌ فِي وَجْهِهِ، وَمَسْأَلَةُ الْغَنِيِّ نَارٌ
29. مالدار کا قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے اور مالدار کا بھیک مانگنا اس کے چہرے پر عیب کا باعث ہے اور مالدار کا بھیک مانگنا جہنم کی آگ ہے
حدیث نمبر: 43
43 - وأنا ابْنُ السِّمْسَارِ، ثنا أَبُو زَيْدٍ، ثنا الْفَرَبْرِيُّ، ثنا الْبُخَارِيُّ، نا مُسَدَّدُ، نا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، نا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مالدار کا قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ [مسند الشهاب/حدیث: 43]
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2287، 2288، 2400، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1564، ومالك فى «الموطأ» برقم: 1382، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4692، 4695، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1308، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2628، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2403، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11399، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7454، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1062، والطبراني فى «الصغير» برقم: 646، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 22845»

وضاحت: تشریح- مطلب یہ ہے کہ جو مقروض ادائے قرض کی استطاعت کے باوجود ٹال مٹول سے کام لے وہ ظالم ہے۔ قرض خواہ کو اجازت ہے کہ وہ ایسے ظالم شخص کو ذلیل کرے بلکہ جیل بھی بھجوا سکتا ہے، ہاں اگر مقروض مفلس ہو اور واقعتاً وہ ادائے قرض کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو اس کا حکم یہ نہیں بلکہ ایسے مقروض کے متعلق قرض خواہ کو رغبت دلائی گئی ہے کہ اگر وہ اسے مہلت دے تو اس کے لیے بڑا ثواب ہے۔ بہر حال ادائے قرض میں بلا وجہ تاخیر مناسب نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مقروض کی نماز جنازہ پڑھانے سے انکار کر دیا تھا۔ (بخاری: 2289) اور ایک موقع پر آپ نے فرمایا تھا کہ شہید کے سارے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں سوائے قرض کے۔ آپ نے فرمایا کہ جبریل (ابھی ابھی) مجھے بتا کر گئے ہیں کہ شہید کو قرض کی معافی نہیں۔ (مسلم: 1885)