260. جو شخص اپنی مونچھیں نہیں کترواتا وہ ہم میں سے نہیں
حدیث نمبر: 358
358 - أنا أَبُو الْحَسَنِ، مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ النَّيْسَابُورِيُّ أنا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مَسْلَمَةَ الْخَبَاسُ نا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَحْمَدُ بْنُ شُعَيْبٍ النَّسَائِيُّ أنا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أنا عَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ
سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث ایک دوسری سند کے ساتھ بھی حدیث مروی ہے۔ [مسند الشهاب/حدیث: 358]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه ترمذي: 2761، والنسائي: 13، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5477، والطبراني فى «الصغير» برقم: 278، وأحمد فى «مسنده» برقم: 19570»
وضاحت: تشریح: - مونچھیں کتروانا فطری امور میں سے ہے، حدیث مبارک ہے کہ پانچ چیزیں فطری ہیں: مونچھیں کاٹنا، بغلوں کے بال اکھیڑنا، ناخن تراشنا، زیر ناف بالوں کی صفائی کرنا اور ختنہ کرانا۔ [بخاري: 5888 ترمذي: 2756] ان امور کو فطرت قرار دینے سے مراد ایک تو یہ ہے کہ انسان کی فطرت سلیم ان کا تقاضا کرتی ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ ٰ نے ہر نبی کو ان امور کا حکم فرمایا ہے لہٰذا فطرت اور شریعت دونوں کا تقاضا ہے کہ انسان ان احکامات کو تسلیم کرے اور ان پر عمل کرے، مونچھیں اگر زیادہ بڑی ہو جائیں تو فطری طور پر انسان سے ایک گھن سی آنا شروع ہو جاتی ہے اور پھر یہ کہ بڑی مونچھیں کھانے پینے کی اشیاء کولگتی ہیں جس سے گندے جراثیم پیٹ میں جاتے ہیں جو کئی بیماریوں کا باعث بنتے ہیں لہٰذا انہیں کتر واتے رہنا چاہیے جو شخص ایسا نہیں کرے گا اس کے لیے وعید ہے کہ وہ ہم میں سے نہیں۔