1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


مسند الشهاب
احادیث201 سے 400
211. نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ الصِّحَّةُ وَالْفَرَاغُ
211. دونعمتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں اکثر لوگ خسارے میں ہیں (ان میں سے ایک) صحت ہے اور (دوسری) فراغت ہے
حدیث نمبر: 295
295 - أَخْبَرَنَا هِبَةُ اللَّهِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْخَوْلَانِيُّ، أبنا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ، ثنا أَبُو شَيْبَةَ الْبَغْدَادِيُّ، ثنا إِسْحَاقُ بْنُ إِسْرَائِيلَ، أبنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِنْدَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ الصِّحَّةُ وَالْفَرَاغُ»
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دونعمتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں اکثر لوگ خسارے میں ہیں (ان میں سے ایک) صحت ہے اور (دوسری) فراغت ہے۔ [مسند الشهاب/حدیث: 295]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البخاري: 6412، وترمذي: 2304، وابن ماجه: 4170»

وضاحت: تشریح:
اس حدیث مبارک میں اللہ تعالیٰ ٰ کی دو ایسی نعمتوں کا تذکرہ ہے جو بڑی اہم ہیں لیکن لوگ ان کی قدر نہیں کرتے۔ وہ نعمتیں یہ ہیں:
صحت: -
صحت اللہ تعالیٰ ٰ کی بہت بڑی نعمت ہے، اس کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب انسان کسی بیماری میں مبتلا ہو جائے، لہٰذا عقل مندی اسی میں ہے کہ بیماری آنے سے پہلے پہلے اس نعمت کی قدر کریں، اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ توشہ آخرت جمع کریں کیونکہ جو نیکیاں صحت والی زندگی میں ہو سکتی ہیں وہ بیماری کی حالت میں نہیں ہو سکتیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ طاقتور مومن کمزور مومن سے بہتر اور اللہ تعالیٰ ٰ کو زیادہ محبوب ہے تا ہم دونوں میں خیر و بھلائی کا پہلو موجود ہے۔ [مسلم: 2664]
فراغت: -
فراغت بھی اللہ تعالیٰ ٰ کی بہت بڑی نعمت ہے، اس کی قدر کرنی چاہیے اور مصروفیات سے پہلے پہلے فارغ البالی کو غنیمت سمجھتے ہوئے اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے، اپنے فارغ اوقات کو عبادت الہی اور خدمت دین میں صرف کرنا چاہیے۔ لوگوں کی اکثریت کا یہ عالم ہے کہ صحت ہو تو اسباب معاش میں اس قدر مشغول ہو جاتے ہیں کہ عبادت کے لیے وقت ہی نہیں ملتا اور اگر اسباب معاش سے فراغت ہو تو صحت ساتھ نہیں دیتی اور جب صحت اور فراغت دونوں نعمتیں میسر ہوں تو سستی اور کاہلی غالب آ جاتی ہے جس کی وجہ سے عبادت الہی اور خدمت دین کے مواقع ضائع کروا بیٹھتے ہیں، یہی خسارہ اور گھاٹا ہے۔