1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


مسند الشهاب
احادیث201 سے 400
181. الْيَمِينُ الْكَاذِبَةُ مَنْفَقَةٌ لِلسِّلْعَةِ مَمْحَقَةٌ لِلْكَسْبِ
181. جھوٹی قسم سے سودا فروخت ہو جاتا ہے لیکن وہ کمائی کو ختم کر دیتی ہے
حدیث نمبر: 258
258 - وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ عَلِيُّ بْنُ مُوسَى السِّمْسَارُ بِدِمَشْقَ، أبنا أَبُو زَيْدٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الْمَرْوَزِيُّ، أبنا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ الْفَرَبْرِيُّ، أبنا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْبُخَارِيُّ، ثنا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، ثنا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَنِي ابْنُ الْمُسَيِّبِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ: سَمِعْتُ، رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «الْحَلِفُ مَنْفَقَةٌ لِلسِّلْعَةِ مَمْحَقَةٌ لِلْبَرَكَةِ»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: (جھوٹی) قسم سے سودا فروخت ہو جاتا ہے لیکن وہ برکت کو ختم کر دیتی ہے۔ [مسند الشهاب/حدیث: 258]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البخاري: 2087، ومسلم: 1606، وأبو داود: 3335، والنسائي: 4466،»

وضاحت: تشریح:
ان احادیث میں جھوٹی قسم اٹھا کر سودا فروخت کرنے کی مذمت فرمائی گئی ہے۔
پہلی حدیث میں ہے کہ ایسا کرنے سے کمائی ختم ہو جاتی ہے یعنی کمائی میں کمی آجاتی ہے، کاروبار مندا پڑ جاتا ہے۔ جھوٹی قسمیں اٹھانے والا آخر کب تک جھوٹ کا سہارا لے کر مال فروخت کرتا رہے گا؟ ایک نہ ایک دن تو پتا چل ہی جائے گا کہ یہ جھوٹا ہے اور جھوٹی قسمیں اٹھاتا ہے لہٰذا لوگ اس سے سودا خریدنا چھوڑ دیں گے یوں اس کا کاروبار مندا پڑ جائے گا۔
دوسری حدیث میں ہے کہ برکت ختم ہو جاتی ہے یعنی مال حرام ہو جاتا ہے اور برکت ختم ہو جاتی ہے۔ مال کثیر ہونے کے باوجود بھی ضروریات پوری نہیں ہوتیں۔ جھوٹی قسم اٹھا کر اپنا مال فروخت کرنا کتنا بڑا گناہ ہے؟ اندازہ کریں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین شخص ایسے ہیں جن سے قیامت کے دن نہ تو اللہ تعالیٰ ہم کلام ہوگا، نہ انہیں دیکھے گا اور نہ ہی انہیں پاک کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ صحابی نے عرض کیا: یہ لوگ تو نا کام ہو گئے، خسارے میں چلے گئے۔ اللہ کے رسول! بتائیے یہ کون ہیں؟ فرمایا: ازار لٹکانے والا، احسان جتلانے والا اور جھوٹی قسم کھا کر اپنا مال فروخت کرنے والا۔ [مسلم: 102]
دوسری حدیث ہے، فرمایا: تین شخص ایسے ہیں جن سے قیامت کے دن اللہ عز و جل نہ تو ہم کلام ہوگا، نہ انہیں دیکھے گا اور نہ ہی نہیں پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے، ایک وہ شخص جس کے ہاں گزرگاہ کے پاس (اس کی ضرورت سے) زائد پانی ہے لیکن وہ مسافر کو پانی لینے سے روک دے۔ دوسرا وہ آدمی جو صرف دنیوی مفاد کی خاطر کسی امام سے بیعت کرتا ہے، اگر امام اس کو اس کی منشاء کے مطابق دیتا رہے تو وہ بیعت پر قائم رہتا ہے اور اگر نہ دے تو توڑ دیتا ہے۔ تیسرا وہ شخص جو کسی آدمی سے عصر کے بعد سامان کا سودا کرتا ہے اور اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہے کہ اس سامان کے بدلے اسے اس قدر رقم مل رہی تھی (حالانکہ اسے اتنی رقم نہیں ملتی تھی) دوسرا (خرید نے والا) شخص اس کی تصدیق کر دیتا ہے (اور سامان خرید لیتا ہے)۔ [بخاري: 2672 نسائي: 4467]
اسی طرح کا روبار میں جھوٹ بولنے سے بھی منع فرمایا گیا ہے، چنانچہ آپ کا ارشاد گرامی ہے: دو خرید و فروخت کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں انہیں سوداختم کرنے کا اختیار ہے، اگر وہ دونوں سچ بولیں اور ہر بات وضاحت سے کریں تو ان کے سودے میں برکت ہوگی اور اگر جھوٹ بولیں اور صورت حال چھپائیں تو ان کے سودے سے برکت اٹھ جاتی ہے۔ [مسلم: 1532 نسائي: 4463]
خرید فروخت میں جھوٹی قسم کی طرح سچی قسم اٹھانا بھی کوئی اچھی بات نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: خرید و فروخت کرتے وقت زیادہ قسمیں اٹھانے سے بچو کیونکہ اس سے کاروبار کو فروغ تو ملتا ہے لیکن پھر وہ ختم ہو جاتا ہے۔ [مسلم: 1607]