1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


مسند الشهاب
احادیث1401 سے 1499
895. اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عِلْمٍ لَا يَنْفَعُ
895. اے اللہ! بے شک میں ایسے علم سے تیرہ پناہ چاہتا ہوں جو نفع مند نہ ہو
حدیث نمبر: 1468
1468 - أَخْبَرَنَا أَبُو مُسْلِمٍ، مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الْكَاتِبُ، ثنا أَبُو الْقَاسِمِ الْبَغَوِيُّ، ثنا أَبُو نَصْرٍ التَّمَّارُ، ثنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عِلْمٍ لَا يَنْفَعُ، وَعَمَلٍ لَا يُرْفَعُ، وَقَلْبٍ لَا يَخْشَعُ، وَقَوْلٍ لَا يُسْمَعُ»
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: اے اللہ! بے شک میں تیری پناہ چاہتا! ہوں ایسے علم سے جو نفع مند نہ ہو، ایسے عمل سے جو اد پر تیری بارگاہ کی طرف نہ چڑھے، ایسے دل سے جو (تجھ سے) ڈرتا نہ ہو اور ایسی بات سے جو سنی نہ جائے۔ [مسند الشهاب/حدیث: 1468]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 83، 1015، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 356، وأحمد فى «مسنده» برقم: 13203، والطيالسي فى «مسنده» برقم: 2119»
قماده مدلس کا عنعنہ ہے۔

وضاحت: تشریح: -
① حدیث میں مذکور ان چاروں چیزوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ حاصل کرنا مستحب اور پسندیدہ عمل ہے۔
② ظاہری معنی مراد نہیں بلکہ مقصود یہ ہے کہ یا اللہ! میرے علم کو مفید بنا، دل کو عاجزی اور خشوع والا بنا، میری دعائیں قبول فرما اوور میرے نفس کو قناعت پسند بنا۔
③ آپ کا استعاذہ امت کی تعلیم اور اظہار عبودیت کے لیے تھا ورنہ آپ کو یہ پناہ پہلے سے حاصل تھی۔ اس میں یہ اشارہ ہے کہ بندے کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا چاہیے اور اللہ تعالیٰ کے سامنے محتاج بن کر رہنا چاہیے۔
④ علم نافع سے مراد علم کے مطابق عمل ہے کیونکہ علم کا سب سے پہلا فائدہ خود عالم کو ہونا چاہیے پھر دوسروں کو، مثلاً تبلیغ و تعلیم وغیرہ
⑤ دعا کی قبولیت سے مراد اس پر ثواب حاصل کرنا ہے نہ کہ بعینہ بات کا پورا ہو جانا کیونکہ یہ بہت سے امور میں ممکن نہیں
⑥ نفس کے سیر نہ ہونے سے مراد نفس کا مریض اور لالچی ہونا ہے اور ثواب کی حرص اچھی چیز ہے۔ واللہ اعلم۔ [سنن نسائي: 380 379]