1352 - وأنا أَبُو مُحَمَّدٍ التُّجِيبِيُّ، نا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ جَامِعٍ، نا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، نا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، نا حَمَّادُ بْنُ يَحْيَى، نا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَثَلُ أُمَّتِي مَثَلُ الْمَطَرِ لَا يُدْرَى أَوَّلُهُ خَيْرٌ أَوْ آخِرُهُ»
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت کی مثال بارش کی مانند ہے جس کے بارے میں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس کے ابتدا میں خیر و بھلائی ہے یا انتہا میں۔“[مسند الشهاب/حدیث: 1352]
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، وأخرجه الترمذي فى «جامعه» برقم: 2869، وأحمد فى «مسنده» برقم: 12521»
وضاحت: تشریح: - ان احادیث میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پوری امت محمد یہ دوسروں کے مقابلے میں اچھی ہے اور اس میں خیر و بھلائی ہے۔ جس طرح ضرورت کے وقت اور ضرورت کے مطابق ہونے والی بارش کے متعلق یہ کہنا مشکل ہوتا ہے کہ کون سی مفید اور کون کسی بے کار تھی، اس کا ابتدائی حصہ مفید تھا یا انتہائی؟ پوری بارش ہی نافع مانی جاتی ہے اسی طرح پوری امت میں خیر و بھلائی ہے، حضرات صحابہ میں بھی اور ان کے بعد تا قیامت آنے والے سچے مسلمانوں میں بھی۔ ہر ایک نے مختلف انداز میں دین کی خدمت کی ہے اور اپنی اپنی طاقت کے مطابق اس کو فائدہ پہنچایا ہے۔ اگر چہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے باقی لوگوں سے افضل ہونے میں کوئی شک نہیں مگر کوئی مؤمن بے کار اور خیر و بھلائی سے خالی بھی نہیں ہے۔