1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


مسند الشهاب
احادیث1201 سے 1400
769. خَيْرُ الصَّدَقَةِ مَا كَانَ عَنْ ظَهْرِ غِنًى
769. بہترین صدقہ وہ ہے جس کے بعد آدمی غنی رہے
حدیث نمبر: 1232
1232 - أنا مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ النَّيْسَابُورِيُّ، أنا الْحَسَنُ بْنُ رَشِيقٍ، نا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، نا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنِي ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «خَيْرُ الصَّدَقَةِ مَا تُصُدِّقَ بِهِ عَنْ ظَهْرِ غِنًى، وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى، وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بے شک رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بہترین صدقہ وہ ہے جو اس حال میں کیا جائے کہ آدمی اس کے بعد بھی غنی رہے اور اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے اور جن کی تو عیال داری کرتا ہے (صدقہ) ان سے شروع کر۔ [مسند الشهاب/حدیث: 1232]
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: بخاري: 5355،ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1042، أبو داود: 1676، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3363، والترمذي فى «جامعه» برقم: 680، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1691، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1088، 1089، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7276»

وضاحت: تشریح: -
بہترین صدقہ وہ ہے جس کے بعد آدمی غنی رہے۔ مطلب یہ ہے کہ آدمی کو سب سے پہلے اپنی ضروریات دیکھنی چاہیے، یہ نہیں کہ جتنا مال ہو وہ تو صدقہ و خیرات میں دے دے اور پھر اپنی ضروریات کے لیے اوروں کے آگے ہاتھ پھیلاتا پھرے۔
اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ اوپر والے ہاتھ سے مراد خرچ کرنے والے اور نیچے والے ہاتھ سے مراد سوالی کا ہاتھ ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ اوپر والا ہاتھ خرچ کرنے والا ہے اور نیچے والا ہاتھ مانگنے والا ہے۔ (بخاری: 1429)
ایک حدیث میں ہے کہ ہاتھ تین طرح کے ہیں: ایک ہاتھ اللہ کا ہے جو سب سے اوپر ہے، دوسرا دینے والے کا ہے جو اس کے بعد ہے اور سائل کا ہاتھ سب سے نیچے ہے لہٰذا جو زائد ہو وہ دے دو اور اپنے نفس کے سامنے عاجز مت بنو (اس کا کہا: مت مانو)۔ [أبو داود: 1649 وقال شخينا على زئي: إسناده صحيح]
جن کی تو عیال داری کرتا ہے ان سے شروع کر۔ اس کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہوں حدیث نمبر 634۔
جو کوئی بچے گا اللہ اسے بچائے گا۔ یعنی جو کوئی مانگنے یا حرام کاموں سے بچے گا اللہ تعالیٰ ٰ اسے ان چیزوں سے بچائے گا۔ اس سے یہ بھی پتا چلا کہ مانگنے یا حرام کاموں سے بچنے کی صفت اللہ تعالیٰ ٰ کو بہت پسند ہے، اللہ تعالیٰ ٰ ایسے لوگوں کی مدد کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ ٰ سے ڈر کر ان کاموں سے بچتے ہیں۔
جو شخص مستغنی رہے گا اللہ اسے غنی کر دے گا۔ یعنی جو شخص دنیاوی امور میں لوگوں سے بے نیازی اختیار کرے گا اللہ اسے لوگوں سے بے نیاز کر دے گا اور اسے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ذلت سے بچا کر فنائے نفس اور صبر و قناعت کی دولت سے نوازے گا۔