سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں: ”جس نے قران کو خوش الحانی سے نہ پڑھا وہ ہم میں سے نہیں۔“[مسند الشهاب/حدیث: 1202]
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه أبو داود: 1469، 1470، أحمد: 1/ 172، دارمي: 3488، فضائل القرآن لابي عبيد، ص: 109»
وضاحت: تشریح: - اس حدیث کا ایک معنی تو یہی ہے جو امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے اور دوسرا معنی آواز کی تحسین ہے یعنی قرآن مجید کو خوش الحانی اور عمدہ آواز میں پڑھا جائے۔ اکثر علماء یہی معنی بیان کرتے ہیں، حدیث سے بھی اسی معنی کو تقویت ملتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ نے اتنی توجہ سے کسی چیز کو نہیں سنا جتنا اس نے اپنے نبی کو خوش الحافی کے ساتھ بآواز بلند قرآن پڑھتے سنا ہے۔“[بخاري: 7544] حدیث میں یہ بھی ہے کہ قرآن کو اپنی آوازوں کے ساتھ مزین کرو۔“[أبو داود: 1468، وسنده صحيح] ایک اور حدیث ہے کہ اپنی آوازوں سے قرآن کو حسین بناؤ کیونکہ اچھی آواز قرآن کے حسن میں اضافہ کرتی ہے۔“[دارمي: 3501، حاكم: 575/1، وسنده حسن] قرآن میں خوش الحانی تبھی آسکتی ہے جب تلفظ کا خیال رکھتے ہوئے بلند آواز میں اسے پڑھا جائے۔ ابن ابی ملیکہ سے پوچھا: گیا کہ اگر کسی کی آواز میں خوبصورتی نہ ہو تو؟ انہوں نے کہا: جہاں تک ممکن ہو آواز کو خوبصورت بناؤ۔“[أبو داود: 1471، وسنده صحيح] اس حدیث کا ایک معنی استغناء بھی ہے یعنی جو شخص قرآن پڑھ کر اور اس کا علم حاصل کر کے بھی دنیا سے بے نیاز نہ ہوا وہ ہم میں سے نہیں۔ واللہ اعلم حدیث میں آمدہ وعید کا مطلب یہ نہیں کہ ایسا انسان دین اسلام سے خارج ہے بلکہ قرآن کو خوش الحانی سے نہ پڑھنے والا نبی کے طریقے پر نہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو خوش الحانی سے قرآن پڑھا کرتے تھے جیسا کہ صحیح احادیث میں ہے۔