نافع سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما صدقہ فطر نکالتے اپنے غلاموں کی طرف سے جو وادی قریٰ اور خیبر میں تھے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الزَّكَاةِ/حدیث: 698]
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7680، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 2405، والشافعي فى «الاُم» برقم: 64/2، شركة الحروف نمبر: 578، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 51»
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: جو بہتر سنا ہے میں نے اس باب میں، وہ یہ ہے کہ آدمی اس شخص کی طرف سے صدقۂ فطر ادا کرے جس کا نان ونفقہ اس پر واجب ہے، اور اس پر خرچ کرنا ضروری ہے، اور اپنے غلام اور مکاتب اور مدبر سب کی طرف سے صدقہ ادا کرے، خواہ یہ غلام حاضر ہوں یا غائب، شرط یہ ہے کہ وہ مسلمان ہوں، تجارت کے واسطے ہوں یا نہ ہوں، اور جو اُن میں مسلمان نہ ہو اس کی طرف سے صدقہ نہ دے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الزَّكَاةِ/حدیث: 698B1]
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: اگر کسی کا غلام مفرور ہو تو اگر مالک اس کے پتے اور نشان کو جانتا ہو یا نہ جانتا ہو، لیکن بھاگنا اس کا قریب ہو یعنی تھوڑا عرصہ اس کے بھاگے پر گزرا ہو اور اس کی زندگی اور مراجعت کی توقع ہو تو میرے نزدیک اس کی طرف سے صدقۂ فطر ادا کرنا چاہیے، اور جو اس کے بھاگے کو بہت زمانہ گزر چکا ہو اور اس کے آنے کی پھر توقع نہ ہو تو صدقۂ فطر اس کی طرف سے نہ دے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الزَّكَاةِ/حدیث: 698B2]
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: صدقۂ فطر شہر اور دیہات دونوں جگہ کے رہنے والوں پر واجب ہے، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض کیا صدقۂ فطر کو اُوپر آزاد اور غلام کے، اور ہر مرد اور عورت کے مسلمانوں میں سے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الزَّكَاةِ/حدیث: 698B3]