کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: ایک اور اختلاف ہے، وہ یہ ہے کہ اگر کسی کے پاس سونا یا چاندی نصاب کے موافق ہو پھر وہ اور مال کمائے تو اس فائدہ کی زکوٰۃ دینا لازم نہ آئے گی جب تک اس پر ایک سال نہ گزرے، اور اگر کسی کے پاس بکریاں یا گائیں یا اونٹ ہر ایک قسم مقدارِ نصاب کے ہو پھر اور بکریاں یا گائیں یا اونٹ حاصل کرے تو ان کی زکوٰۃ پہلے ہم جنس جانوروں کے ساتھ مل کر لازم آئے گی۔ کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: یہ تقریر بہت اچھی ہے اس باب میں جو میں نے سنا سب تقریروں سے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الزَّكَاةِ/حدیث: 675Q]
اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بکریاں آئیں زکوٰۃ کی۔ اس میں ایک بکری دیکھی بہت دودھ والی، تو پوچھا آپ نے: یہ بکری کیسی ہے؟ لوگوں نے کہا: زکوٰۃ کی بکری ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس کے مالک نے کبھی اس کو خوشی سے نہ دیا ہوگا۔ لوگوں کو فتنے میں نہ ڈالو، ان کے بہترین اموال نہ لو، اور باز آؤ ان کے رزق چھین لینے سے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الزَّكَاةِ/حدیث: 675]
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7754، والبيهقي فى «سننه الصغير» برقم:1282، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 2394، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 10011، شركة الحروف نمبر: 553، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 28»