ابن شہاب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حاجتِ ضروری کے لیے گھروں میں آتے تھے اعتکاف کی حالت میں۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الِاعْتِكَافِ/حدیث: 650]
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2029، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 297، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2467، والترمذي فى «جامعه» برقم: 804، والنسائي فى «الكبريٰ» برقم: 3369، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1776، وأحمد فى «مسنده» برقم: 25026، شركة الحروف نمبر: 646، فواد عبدالباقي نمبر: 19 - كِتَابُ الِاعْتِكَافِ-ح: 8»
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: معتکف جنازہ کے ساتھ نہ جائے اگرچہ اس کے ماں باپ کا جنازہ ہو یا کسی اور کا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الِاعْتِكَافِ/حدیث: 650B]
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: اگر معتکف اعتکاف کی حالت میں اپنا عقد کرے تو کچھ قباحت نہیں ہے، مگر مساس درست نہیں ہے، اسی طرح عورت بھی حالتِ اعتکاف میں صرف عقد کر سکتی ہے، مساس نہیں۔ اور معتکف کو اپنی بی بی سے جو کام دن میں منع ہے وہی رات کو بھی منع ہے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الِاعْتِكَافِ/حدیث: 651Q1]
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: معتکف کو درست نہیں کہ اپنی بی بی سے جماع کرے یا اس سے کسی طرح کی لذت اٹھائے، مثلاً بوسہ لے یا اور کچھ کرے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الِاعْتِكَافِ/حدیث: 651Q2]
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: میں نے کسی سے نہیں سنا جو اس امر کو منع کرتا ہو کہ معتکف مرد اور معتکفہ عورت اپنا نکاح پڑھ لیں اعتکاف میں، البتہ یہ ضرور ہے کہ جماع نہ کریں، اسی طرح روزہ دار کو درست ہے کہ روزے میں نکاح کرے اور معتکف اور محرم میں یعنی جو شخص احرام باندھے ہو حج یا عمرہ کا، فرق یہ ہے کہ محرم کھائے اور پیئے اور بیمار پرسی کو جائے اور جنازہ کے ساتھ جائے اور خوشبو نہ لگائے۔ اور معتکف خوشبو لگائے، تیل ڈالے اگر چاہے تو بال کتروائے، مگر جنازہ کے ساتھ نہ جائے اور نماز نہ پڑھے جنازہ کی اور نہ بیمار پرسی کرے، تو ان دونوں کا حکم نکاح میں بھی مختلف ہے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الِاعْتِكَافِ/حدیث: 651Q3]
کہا مالک رحمہ اللہ نے: یہ احکام اس طریقے کے بموجب ہیں جو سلف میں تھا نکاحِ محرم اور معتکف اور صائم میں۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الِاعْتِكَافِ/حدیث: 651Q4]