حضرت نافع سے روایت ہے کہ میں نے نماز پڑھی عید الاضحیٰ اور عید الفطر کی ساتھ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے، تو پہلی رکعت میں سات تکبیریں کہیں قبل قرأت کے، اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں قبل قرأت کے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْعِيدَيْنِ/حدیث: 435]
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6264، 6265، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 5680، 5681، 5682، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 5752، والطحاوي فى «شرح معاني الآثار» برقم: 7271، 7272، والشافعي فى الاُم برقم: 236/1، والشافعي فى المسند: 322/1، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم:1900، شركة الحروف نمبر: 399، فواد عبدالباقي نمبر: 10 - كِتَابُ الْعِيدَيْنِ-ح: 9»
موطا امام مالك رواية يحييٰ کی حدیث نمبر 435 کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل،موطا امام مالک (یحییٰ) 435
عیدین میں 12 تکبیریں اور رفع یدین
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے مولیٰ (آزاد کردہ غلام) نافع (رحمہ اللہ) سے روایت ہے کہ میں نے عید الاضحی اور عیدالفطر (کی نماز) ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) کے ساتھ (یعنی آپ کے پیچھے) پڑھی تو آپ نے پہلی رکعت میں قراءت سے پہلے سات تکبیریں کہیں اور دوسری رکعت میں قراءت سے پہلے پانچ تکبیریں کہیں۔
امام مالک نے فرمایا: ہمارے ہاں (مدینہ میں) اسی پر عمل ہے۔ [موطأ امام مالك، رواية يحييٰ بن يحييٰ 1/ 180ح 435 وسنده صحيح، رواية ابي مصعب الزهري 1/ 230 ح 590]
اس روایت کی سند بالکل صحیح ہے۔
امام بیہقی نے فرمایا: اور ابو ہریرہ کی موقوف روایت صحیح ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ [الخلافيات قلمي ص 53 ب، مختصر الخلافيات لابن فرح ج 2 ص 220]
ایک روایت میں ہے کہ نافع نے کہا: میں نے لوگوں کو اسی پر پایا ہے۔ [الخلافيات قلمي، ص 55 ا وسنده حسن، عبدالله العمري عن نافع: حسن الحديث و ضعيف عن غيره]
ایک روایت میں ہے کہ اور یہ سنت ہے۔ [السنن الكبريٰ للبيهقي 3/ 288 وسنده صحيح] فائدہ: سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اپنی نماز (مطلقاً) پڑھ کر فرماتے تھے: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں تم سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے مشابہ ہوں، یہی آپ کی نماز تھی حتیٰ کہ آپ دنیا سے چلے گئے۔ [صحيح بخاري: 803]
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی نماز کا ہر مسئلہ مرفوع حکماً ہے اور یہی نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری نماز تھی لہٰذا اس کے مقابلے میں ہر روایت منسوخ ہے۔
امام محمد بن سیرین (مشہور ثقہ تابعی) نے فرمایا: «كل حديث أبى هريرة عن النبى صلى الله عليه وسلم» إلخ
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی ہر حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے۔ [
شرح معاني الآثار 1/ 20 وسنده حسن]
اس قول کا تعلق سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی نماز والی تمام روایات سے ہے جیسا کہ صحیح بخاری [803] کی مذکورہ حدیث سے ظاہر ہے۔ خلاصۃ التحقیق: بارہ تکبیروں والی حدیث بالکل صحیح ہے اور مرفوع حکماً ہے اور اس کے مقابلے میں ہر روایت (چاہے طحاوی کی معانی الآثار کی چھ تکبیروں والی روایت ہو) منسوخ ہے۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کی تائید میں مرفوع روایات بھی ہیں۔ مثلاً دیکھئے: [حديث ابي داود: 1151، وسنده حسن]
ایک صحیح حدیث میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر رکعت میں رکوع سے پہلے ہر تکبیر پر رفع یدین کرتے تھے، یہاں تک کہ آپ کی نماز پوری ہو جاتی۔ [مسند احمد 2/ 134، وسنده حسن، ماهنامه الحديث حضرو: 17 ص 6]
اس حدیث سے سلف صالحین (امام بیہقی فی السنن الکبریٰ [3/ 292، 293]، اور ابن المنذر کما فی التلخیص الحبیر [2/ 86 ح 692] نے (متفقہ یعنی بغیر کسی اختلاف کے) استدلال کیا ہے کہ تکبیراتِ عیدین میں رفع یدین کرنا چاہئے۔
امام اوزاعی رحمہ اللہ (متوفی 157ھ) نے فرمایا: تمام تکبیروں کے ساتھ رفع یدین کرو۔ [احكام العيدين للفريابي: 136، وسنده صحيح]
نیز دیکھئے: [كتاب الام للشافعي 1/ 237 مسائل احمد رواية ابي داود ص 60 اور تاريخ يحييٰ بن معين رواية عباس الدوري: 2284]
سلف صالحین کے اس متفقہ فہم کے خلاف بعض جدید محققین اور متحققین کا یہ دعویٰ کہ ”تکبیراتِ عیدین میں رفع یدین نہیں کرنا چاہئے“ بلا دلیل اور مردود ہے۔
تفصیل کے لئے دیکھئے: [ماهنامه اشاعة الحديث حضرو: 17 ص 6 تا 17] تنبیہ: کسی ایک صحیح حدیث سے بھی یہ ثابت نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کی نماز بغیر تکبیروں کے پڑھی ہو اور یہ بھی ثابت نہیں ہے کہ ان تکبیرات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رفع یدین نہ کیا ہو۔
. . . اصل مضمون کے لئے دیکھئے . . . تحقیقی و علمی مقالات (جلد 3 صفحہ 197 اور 198) للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
تحقیقی و علمی مقالات للشیخ زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 197
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ہمارے نزدیک یہی حکم ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: اگر کوئی شخص پہنچا عیدگاہ میں اور دیکھا کہ لوگ فارغ ہو گئے ہیں عید کی نماز سے تو وہ عید کی نماز نہ پڑھے، نہ عیدگاہ میں نہ اپنے گھر میں، اس پر بھی اگر اس نے پڑھ لی عیدگاہ میں یا اپنے گھر میں تو کچھ قباحت نہیں ہے، لیکن پہلی رکعت میں سات تکبیریں کہے قبل قراءت اور دوسری رکعت میں پانچ قبل قراءت کے۔ اور سفیان ثوری رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک اگر اکیلے نماز عید کی پڑھے تو چار رکعتیں پڑھے، کیونکہ روایت کیا سعید بن منصور نے کہ جس شخص کی فوت ہو جائے نمازِ عید امام کے ساتھ تو وہ چار رکعتیں پڑھے۔ عید کی نماز امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک واجب ہے اور امام مالک رحمہ اللہ اور جمہور علماء کے نزدیک سنت ہے اور یہی صحیح ہے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْعِيدَيْنِ/حدیث: 435B]