حضرت عبدالرحمٰن بن عثمان تیمی سے روایت ہے کہ سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ پانی سے دھوئے اپنے ستر کو۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الطَّهَارَةِ/حدیث: 35]
تخریج الحدیث: «موقوف حسن، و أخرجه التاريخ الكبير للبخاري: 237/6، الأوسط لابن المنذر: 349/1، شركة الحروف نمبر: 32، فواد عبدالباقي نمبر: 2 - كِتَابُ الطَّهَارَةِ-ح: 6» شیخ سلیم ہلالی اور شیخ احمد علی سلیمان احمد نے اس روایت کو حسن کہا ہے۔
موطا امام مالك رواية يحييٰ کی حدیث نمبر 35 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ ابو سمیعہ محمود تبسم، فوائد، موطا امام مالک : 35
فائدہ:
بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور فقہاء سے پانی کے ساتھ استنجاء کرنے کی کراہت یا ممانعت منقول ہے لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان اُن کا ردّ کر رہا ہے، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پانی کے ساتھ استنجاء کرنا بہت سے دلائل سے ثابت ہے، [مثلاً بخاري: 150، مسلم: 270، ترمذي: 14، وغيره] اور اہلِ قباء کے طہارت حاصل کرنے کی اللہ تعالٰی نے [سورة توبه: 108] میں تعریف فرمائی ہے اور اُن سے اظہار محبت کا اعلان فرمایا ہے اور وہ پانی استعمال کیا کرتے تھے۔ [ابوداود: 44، ترمذي: 3100، ابن ماجه: 357، اس كي سند صحيح هے۔]
جمہور سلف و خلف اور اہل فتوی کا اس پر اجماع ہے کہ پانی اور ڈھیلوں کو اکٹھا کرنا جائز بلکہ افضل ہے یعنی پہلے ڈھیلوں سے صفائی کی جائے، پھر پانی استعمال کیا جائے، اس طرح صفائی بھی مکمل ہو جاتی ہے اور مٹی سے جراثیم کا بھی ازالہ ہو جاتا ہے، پھر اس سے ذرا کم فضیلت صرف پانی استعمال کرنے سے ملتی ہے اور اس سے بھی کم صرف ڈھیلوں کا استعمال ہے، البتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دونوں چیزوں کو اکٹھا استعمال کرنا روایات میں منقول نہیں ہے۔
موطا امام مالک از ابو سمیعہ محمود تبسم، حدیث/صفحہ نمبر: 35
کہا یحییٰ نے، پوچھے گئے امام مالک رحمہ اللہ اس شخص سے جس نے وضو کیا تو بھول کر قبل کلی کرنے کے منہ دھو لیا، یا پہلے ہاتھ دھو لیے اور منہ نہ دھویا، کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: جس شخص نے منہ دھو لیا کلی کرنے سے پیشتر تو وہ کلی کرے اور دوبارہ منہ نہ دھوئے۔ لیکن جس نے ہاتھ دھو لیے منہ دھونے سے پیشتر تو اس کو چاہیے کہ منہ دھو کر ہاتھوں کو دوبارہ دھوئے تاکہ دھونا ہاتھ کا بعد دھونے منہ کے ہو جائے، جب تک وضو کرنے والا اپنی جگہ میں ہے یا قریب اس کے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الطَّهَارَةِ/حدیث: 35B1]
الشيخ حافظ ابو سمیعہ محمود تبسم، فوائد، موطا امام مالک : 35
فائدہ:
یعنی اگر بھول کر بغیر ترتیب کے وضو کر لیا اور پھر آدمی وضو والی جگہ سے دور چلا گیا تو امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک دوبارہ ترتیب درست کر کے وضو کرنے کی بھی ضرورت نہیں، کیونکہ امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک ترتیب واجب تو ہے لیکن نسیان کی وجہ سے ساقط ہو جاتی ہے، فقہائے حنفیہ کے نزدیک اعضائے وضو میں ترتیب واجب ہی نہیں۔ جبکہ امام احمد رحمہ اللہ، امام شافعی رحمہ اللہ اور اہل حدیث کے نزدیک اعضائے وضو کو اس ترتیب سے دھونا واجب ہے جو قرآن مجید میں [سوره المائده: 6 میں] موجود ہے، بصورتِ دیگر وضو کا اعادہ لازم ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک صحابی کو یہی حکم فرمایا تھا: «توضاً كَمَا أَمَرَكَ اللهُ» ”وضو اس طرح کرو جیسے اللہ نے تمھیں حکم فرمایا ہے۔“ [ابو عوانه: 253/1، بيهقي: 83/1، اس كي سند صحيح هے]
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری زندگی ترتیب کے ساتھ وضو فرمایا، اگر ترتیب واجب نہ ہوتی تو کبھی ایک بار ہی بیانِ جواز کے لیے بغیر ترتیب کے وضو کر کے دکھا دیتے۔ بلکہ حج کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا تھا: «ابداً بِمَا بَدَا الله به» ”میں اُسی سے آغاز کروں گا، جس کا اللہ نے پہلے ذکر فرمایا ہے۔“ [صحيح مسلم: 1218]
ان دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ وضو میں ترتیب واجب ہے اور غیر مرتب وضو کفایت نہیں کرے گا۔ [السيل الجرار: 87/1، فقه السنة: 33/1، الروضة الندية: 140/1]
موطا امام مالک از ابو سمیعہ محمود تبسم، حدیث/صفحہ نمبر: 35
کہا یحییٰ نے: پوچھے گئے امام مالک رحمہ اللہ اس شخص سے جو وضو میں کلی کرنا یا ناک میں پانی ڈالنا بھول گیا اور نماز پڑھ لی۔ کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: ہو گئی نماز اس کی، دوبارہ پھر نماز پڑھنا لازم نہیں، لیکن آئندہ کی نماز کے واسطے کلی کر لے یا ناک میں پانی ڈال لے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الطَّهَارَةِ/حدیث: 35B2]
الشيخ حافظ ابو سمیعہ محمود تبسم، فوائد، موطا امام مالک : 35
فائدہ:
........ حنفیہ، مالکیہ اور شافعیہ کے ہاں یہی فتویٰ ہے، کیونکہ وہ کُلی اور ناک صاف کرنے کو واجبات میں شمار نہیں کرتے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دائی عمل اور کُلی کرنے کا اور ناک صاف کرنے کا حکم دینا ان کے واجب ہونے کی دلیل ہے۔ [ابو داود: 142، 144، اس كي سند صحيح هے]
اسی لیے امام احمد رحمہ اللہ، اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ، شوکانی رحمہ اللہ، البانی رحمہ اللہ اور صدیق حسن خان رحمہ اللہ وغیرہ اسی کے قائل ہیں اور ظاہر بات ہے کہ جب یہ واجب ہے تو ان کے بغیر نہ وضو ہو گا اور نہ نماز۔ «والله اعلم بالصواب»
موطا امام مالک از ابو سمیعہ محمود تبسم، حدیث/صفحہ نمبر: 35