حضرت یحییٰ بن سعید رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ عصر کی نماز پڑھ کر لوٹے، ایک شخص سے ملاقات ہوئی جو عصر کی نماز میں نہ تھا، آپ نے پوچھا: کس وجہ سے تم رک گئے جماعت میں آنے سے؟ اس نے کچھ عذر بیان کیا، تب فرمایا آپ نے: «طَفَّفْتَ» ۔ کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: «طَفَّفْتَ» «تَطْفِيْفٔ» سے ہے۔ عرب لوگ کہا کرتے ہیں: «لِكُلِّ شَيْءٍ وَفَاءٌ وَ تَطْفِيْفٌ» ۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ وُقُوْتِ الصَّلَاةِ/حدیث: 21]
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه التاريخ الكبير برقم: 429/8، شركة الحروف نمبر: 19، فواد عبدالباقي نمبر: 1 - كِتَابُ وُقُوتِ الصَّلَاةِ-ح: 22» شیخ سلیم ہلالی اور شیخ احمد علی سلیمان نے کہا کہ یہ روایت ضعیف ہے، کیونکہ اس میں انقطاع ہے، یحیٰی بن سعید نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو نہیں پایا۔
موطا امام مالك رواية يحييٰ کی حدیث نمبر 21 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ ابو سمیعہ محمود تبسم، فوائد، موطا امام مالک : 21
فائدہ:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس شخص کے بیان کردو عذر کو معقول یا شرعی عذر نہ جانا، اسی لیے فرمایا کہ تو نے کمی کر دی یعنی اپنا ہی ثواب کم کر لیا یا اپنے اعمال کو ناقص بنا لیا۔
امام مالک رحمہ اللہ اپنی وضاحت سے یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ اگرچہ عام طور پر ”تطفیف“ کا لفظ ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے مستعمل ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے: «وَيْلٌ لِلْمُطَقِفِينَ»[المطففين 83: 1]”ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے تباہی ہے۔“
لیکن اہل عرب کے ہاں یہ لفظ اور اس کا متضاد یعنی ”وفاء“ دونوں ہر چیز کے لیے اُس کے مناسب حال مفہوم کوملحوظ رکھ کر استعمال کیے جاتے ہیں۔ وفاء کے معنی کسی چیز کو پورا ادا کرنے اور تطفیف کے معنی کم کرنے اور گھٹانے کے ہیں، خواہ وہ چیز حسی ہو یا معنوی۔
موطا امام مالک از ابو سمیعہ محمود تبسم، حدیث/صفحہ نمبر: 21