امام مالک رحمہ اللہ کو پہنچا کہ مروان بن حکم نے معاویہ بن ابی سفیان کو لکھا کہ ایک شخص نے نشے کی حالت میں ایک شخص کو مار ڈالا۔ معاویہ نے جواب لکھا کہ تو بھی اس کو مار ڈال۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْعُقُولِ/حدیث: 1535]
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 15980، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 18388، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 28421، 29032، فواد عبدالباقي نمبر: 43 - كِتَابُ الْعُقُولِ-ح: 15ق1»
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا میں نے اس کی تفسیر بہت اچھی سنی، فرمایا اللہ تعالیٰ نے: ”قتل کر آزاد کو آزاد کے بدلے میں، اور غلام کو غلام کے بدلے میں، اور عورت کو عورت کے بدلے میں۔“ تو قصاص عورتوں میں آپس میں لیا جائے گا، جیسا کہ مردوں میں لیا جاتا ہے، اور مرد اور عورت میں بھی لیا جائے گا، کیونکہ اللہ جل جلالہُ فرماتا ہے: ”نفس بدلے نفس کے قتل کیا جائے گا۔“ تو عورت مرد کے بدلے میں قتل کی جائے گی، اور مرد عورت کے بدلے میں مارا جائے گا، اسی طرح ایک دوسرے کو اگر زخمی کرے گا تب بھی قصاص لیا جائے گا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْعُقُولِ/حدیث: 1535B1]
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر ایک شخص ایک شخص کو پکڑ لے اور دوسرا اس کو آکر مار ڈالے اور معلوم ہو جائے کہ اس نے مار ڈالنے ہی کے واسطے پکڑا تھا، تو دونوں شخص اس کے بدلے میں قتل کیے جائیں گے، اگر اس نے اس نیت سے نہیں پکڑا تھا بلکہ اس کو یہ خیال تھا کہ دوسرا شخص یوں ہی اسے مارے گا، تو پکڑنے والا قتل نہ کیا جائے گا لیکن اس کو سخت سزادی جائے گی۔ اور بعد سزا کے ایک برس تک قید کیا جائے گا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْعُقُولِ/حدیث: 1535B2]
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ زید نے عمرو کو قتل کیا، یا اس کی آنکھ پھوڑ ڈالی قصداً، اب قبل اس کے کہ زید سے قصاص لیا جائے اس کو بکر نے مار ڈالا، یا زید کی آنکھ پھوڑ ڈالی، تو اس پر دیت یا قصاص واجب نہ ہوگا، کیونکہ عمرو کا حق زید کی جان میں تھا یا اس کی آنکھ میں، اب زید ہی نہ رہا یا وہ آنکھ ہی نہ رہی۔ اس کی نظیر یہ ہے کہ زید عمرو کو عمداً مار ڈالے گا، پھر زید بھی مر جائے تو عمرو کے وارثوں کو اب کچھ نہ ملے گا، کیونکہ قصاص قاتل پر ہوتا ہے، جب وہ خود مرگیا تو نہ قصاص ہے نہ دیت۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْعُقُولِ/حدیث: 1535B3]
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ آزاد اور غلام میں قصاص نہیں ہے زخموں میں، لیکن اگر غلام آزاد کو مار ڈالے گا تو غلام مارا جائے گا، اور جو آزاد غلام کو مار ڈالے گا تو آزاد نہ مارا جائے گا یہ میں نے بہت اچھا سنا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْعُقُولِ/حدیث: 1535B4]
امام مالک رحمہ اللہ نے کئی اچھے عالموں سے سنا کہ وہ کہتے تھے کہ جب مقتول مرتے وقت اپنے قاتل کو معاف کر دے تو درست ہے، قتلِ عمد میں اس کو اپنے خون کا زیادہ اختیار ہے وارثوں سے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْعُقُولِ/حدیث: 1536Q1]
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو شخص قاتل کو قتلِ عمد معاف کر دے تو قاتل پر دیت لازم نہ ہوگی، مگر جب کہ قصاص عفو (معاف) کر کے دیت ٹھہرا لے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْعُقُولِ/حدیث: 1536Q2]
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر قاتل کو مقتول معاف کر دے تب بھی قاتل کو سو کوڑے لگائیں گے، اور ایک سال تک قید کریں گے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْعُقُولِ/حدیث: 1536Q3]
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جب کوئی شخص عمداً مارا گیا، اور گواہوں سے قتل ثابت ہوا، اور مقتول کے بیٹے اور بیٹیاں ہیں، بیٹوں نے تو معاف کر دیا لیکن بیٹیوں نے معاف نہ کیا، تو بیٹیوں کے معاف نہ کرنے سے کچھ خلل واقع نہ ہوگا، بلکہ خون معاف ہوجائے گا، کیونکہ بیٹوں کے ہوتے ہوئے ان کو اختیار نہیں ہے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْعُقُولِ/حدیث: 1536Q4]
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ جو شخص کسی کا ہاتھ یا پاؤں توڑ ڈالے تو اس سے قصاص لیا جائے گا، دیت لازم نہ آئے گی۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْعُقُولِ/حدیث: 1536Q5]
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ زخم کا قصاص نہ لیا جائے گا جب تک کہ وہ شخص اچھا نہ ہو لے، جب وہ اچھا جائے گا تو قصاص لیں گے، اب اگر جارح کا بھی زخم اچھا ہو کر مجروح کے مثل ہوگیا تو بہتر، نہیں تو اگر جارح کا زخم بڑھ گیا اور جارح اسی کی وجہ سے مر گیا تو مجروح پر کچھ تاوان نہ ہوگا، اگر جارح کا زخم بالکل اچھا ہوگیا اور مجروح کا ہاتھ شل ہوگیا یا اور کوئی نقص رہ گیا، تو پھر جارح سے قصاص نہ لیا جائے گا لیکن بقدر نقصان کے دیت اس سے وصول کی جائے گی۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْعُقُولِ/حدیث: 1536Q6]
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر کسی شخص نے اپنی عورت کی آنکھ پھوڑ دی، یا اس کا ہاتھ توڑ ڈالا، یا اس کی انگلی کاٹ ڈالی قصداً، تو اس سے قصاص لیا جائے گا، البتہ اگر اپنی عورت کو تنبیہاً رسی یا کوڑے سے مارے اور بلا قصد کسی مقام پر لگ کر زخم ہو جائے، یا نقصان ہوجائے تو دیت لازم آئے گی قصاص نہ ہوگا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْعُقُولِ/حدیث: 1536Q7]