حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ ایک شخص انصار کا جس کا نام اُحیحہ بن جلاح تھا، اس سے چھوٹا چچا تھا، وہ اپنی ننہیال میں تھا، اس کو اُحیحہ نے لے کر مار ڈالا، اس کے ننہیال کے لوگوں نے کہا: ہم نے پالا، پرورش کیا، جب جوان ہوا تو اس کا بھتیجا ہم پر غالب آیا، اور اسی نے لے لیا۔ عروہ نے کہا: اسی وجہ سے (اب دینِ اسلام میں) قاتل مقتول کا وارث نہیں ہوتا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْعُقُولِ/حدیث: 1530]
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وأخرجه عبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 17799، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 32055، 32056، فواد عبدالباقي نمبر: 43 - كِتَابُ الْعُقُولِ-ح: 11»
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک اس میں کچھ اختلاف نہیں ہے کہ قتلِ عمد کرنے والا مقتول کی دیت کا وارث نہیں ہوتا، نہ اس کے مال کا، نہ وہ کسی وارث کو محروم کر سکتا ہے، اور قتلِ خطاء کرنے والا دیت کا وارث نہیں ہوتا، لیکن اور مال کا وارث ہوتا ہے یا نہیں، اس میں اختلاف ہے، میرے نزدیک اور مال کا وارث ہوگا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْعُقُولِ/حدیث: 1530B1]