سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہا انہوں نے: دو وقت کھل جاتے ہیں دروازے آسمان کے، اور کم ہوتا ہے ایسا دعا کرنے والا کہ نہ قبول ہو دعا اُس کی، جس وقت اذان ہو نماز کی، دوسری جس وقت صفت باندھی جائے جہاد کے لیے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الصَّلَاةِ/حدیث: 151]
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه أبو داود فى «سننه» برقم: 2540، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 419، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1720، 1764، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 724، 2549، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1236، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 1969، 1970، 6552، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 1910، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 29852، والطبراني فى "الكبير"، 5756، 5774، 5847، شركة الحروف نمبر: 140، فواد عبدالباقي نمبر: 3 - كِتَابُ الصَّلَاةِ-ح: 7»
سوال ہوا امام مالک رحمہ اللہ سے: کیا جائز ہے جمعہ کی اذان قبل از وقت کے؟ بولے: نہیں! جب تک کہ آفتاب ڈھل نہ جائے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الصَّلَاةِ/حدیث: 151B1]
سوال ہوا امام مالک رحمہ اللہ سے دو مسئلوں کے بارے میں، پہلا یہ کہ اذان اور اقامت دو بار کہی جائے، یعنی کلمات اذان اور اقامت کے، مثلاً «اللّٰهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰه، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلَ اللّٰه، حَيَّ عَلَى الصَّلَوٰة، حَيَّ عَلَى الْفَلَاح» یہ سب دو بار کہے جائیں یا ایک ایک بار۔ دوسرا مسئلہ یہ کہ لوگ کب کھڑے ہوں نماز کے لیے جب تکبیر کہی جائے؟ تو امام مالک رحمہ اللہ نے کہا کہ اذان اور اقامت میں مجھے کوئی حدیث نہیں پہنچی مگر میں نے اپنے شہر کے لوگوں کو جس طرح پایا وہی جانتا ہوں۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الصَّلَاةِ/حدیث: 151B2]
امام مالک رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ اگر چند مقیم لوگ ارادہ کریں کہ جماعت سے ادا کریں فرض نماز کو تو صرف تکبیر کہہ لینا کافی ہے یا اذان بھی دینا ضروری ہے؟ تو جواب دیا امام مالک رحمہ اللہ نے کہ تکبیر کہہ لینا کافی ہے۔ اور اذان واجب ہے اُن مسجدوں میں جہاں جماعت سے نماز ہوتی ہے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الصَّلَاةِ/حدیث: 151B3]
امام مالک رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ بعد اذان کے مؤذن سلام کرے امیر کو اور بلائے اس کو نماز کے لیے اور کون وہ شخص ہے جس پر اوّل سلام کیا مؤذن نے؟ تو جواب دیا امام مالک رحمہ اللہ نے: مجھے یہ خبر نہیں پہنچی کہ اوّل زمانہ میں مؤذن سلام کرتا ہو امیر کو۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الصَّلَاةِ/حدیث: 151B4]
امام مالک رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ ایک مؤذن نے انتظار کیا لوگوں کا لیکن کوئی نہ آیا، آخر اس نے اکیلے تکبیر کہہ کر نماز پڑھ لی، جب وہ نماز پڑھ چکا تو لوگ آئے، اب مؤذن پھر اُن لوگوں کے ساتھ نماز پڑھے یا نہ پڑھے؟ تو جواب دیا امام مالک رحمہ اللہ نے کہ مؤذن پھر نہ پڑھے، اور جو لوگ آئے ہیں وہ اکیلے اکیلے نماز پڑھیں۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الصَّلَاةِ/حدیث: 151B5]
امام مالک رحمہ سے پوچھا گیا کہ ایک مؤذن نے اذان دی، پھر نفل پڑھنے لگا، اب لوگوں نے یہ ارادہ کیا کہ جماعت کھڑی کریں دوسرے شخص کی تکبیر سے؟ تو جواب دیا امام مالک رحمہ اللہ نے کہ اس میں کچھ قباحت نہیں ہے، خواہ مؤذن تکبیر کہے یا اور کوئی شخص کہے دونوں برابر ہیں۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الصَّلَاةِ/حدیث: 151B6]
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ صبح کی اذان تو قدیم سے قبل وقت کے ہوتی چلی آئی ہے، لیکن اور نمازوں کی اذان بعد وقت کے چاہیے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الصَّلَاةِ/حدیث: 151B7]