امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک خطاء میں یہ حکم اتفاقی ہے کہ زخم کی دیت کا حکم نہ ہوگا جب تک مجروح اچھا نہ ہوجائے۔ اگر ہاتھ یا پاؤں کی ہڈی ٹوٹ جائے، پھر جڑ کر اچھی ہوجائے پہلے کے موافق تو اس میں دیت نہیں ہے، اور اگر کچھ نقص رہ جائے تو اس میں دیت ہے نقصان کے موافق۔ اگر وہ ہڈی ایسی ہو جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دیت ثابت ہے تو اسی قدر دیت لازم ہوگی، ورنہ سوچ سمجھ کر جس قدر مناسب ہو دیت دلائیں گے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْعُقُولِ/حدیث: 1500B1]
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر بدن میں خطاءً زخم لگ کر اچھا ہو جائے، نشان نہ رہے تو دیت نہیں ہے، اگر دھبہ یا عیب رہ جائے تو اس کے موافق دیت دینی ہوگی، مگر جائفہ میں تہائی دیت لازم ہوگی، اور منقلہ جسد میں دیت نہیں ہے، جیسے موضحہ جسد میں۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْعُقُولِ/حدیث: 1500B2]
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ اگر جرّاح نے ختنہ کرتے وقت خطاء سے حشفے کو کاٹ ڈالا تو اس پر دیت ہے، اور یہ دیت عاقلے پر ہوگی، اسی طرح طبیب سے جو غلطی ہو جائے بھول چوک کر اس میں دیت ہے (اگر قصداًہو تو قصاص ہے)۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْعُقُولِ/حدیث: 1500B3]
حضرت سعید بن مسیّب کہتے تھے کہ مرد اور عورت کی دیت تہائی دیت تک برابر ہے(1)، مثلاً عورت کی انگلی جیسے مرد کی انگلی(2)، اور دانت عورت کا جیسے دانت مرد کا، اور موضحہ عورت کی مثل مرد کے موضحہ کے، اس طرح منقل عورت کا مثل مرد کے منقلے کے ہے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْعُقُولِ/حدیث: 1500]
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 16311، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 17746، 17751، 17762، 17763، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 27491، 28078، فواد عبدالباقي نمبر: 43 - كِتَابُ الْعُقُولِ-ح: 4ق3»