حضرت ربیعہ بن ابی عبدالرحمٰن اور بہت سے علماء سے روایت ہے کہ جتنے لوگ قتل ہوئے جنگِ جمل(1)، جنگِ صفین(2)، یوم الحرہ(3) میں، اور جو یوم القدید(4) میں مارے گئے، وہ آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوئے، مگر جس شخص کا حال معلوم ہو گیا کہ وہ اپنے وارث سے پہلے مارا گیا(5)(تو وہ ایک دوسرے کےوارث ہوئے)۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْفَرَائِضِ/حدیث: 1491]
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہی حکم ہے، اگر کئی آدمی ڈوب جائیں، یا مکان سے گر کر مارے جائیں، یا قتل کیے جائیں، جب معلوم نہ ہو سکے کہ پہلے کون مرا اور بعد میں کون مرا، تو آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہ ہوں گے، بلکہ ہر ایک کا ترکہ اس کے وارثوں کو جو زندہ ہوں پہنچے گا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْفَرَائِضِ/حدیث: 1491B1]
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ کوئی کسی کا وارث شک سے نہ ہوگا، بلکہ علم و یقین سے وارث ہوگا، مثلاً ایک شخص مر جائے اور اس کے باپ کا مولیٰ (غلام آزاد کیا ہوا) مر جائے، اب اس کے بیٹے یہ کہیں: اس مولیٰ کا وارث ہمارا باپ تھا تو یہ نہیں ہو سکتا، جب تک کہ علم ویقین یا گواہوں سے یہ ثابت نہ ہو کہ پہلے مولیٰ مرا تھا۔ اس وقت تک مولیٰ کے وارث جو زندہ ہوں اس ترکہ کو پائیں گے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْفَرَائِضِ/حدیث: 1491B2]
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اسی طرح اگر سگے دو بھائی مر جائیں، ایک کی اولاد ہو اور دوسرا لاولد ہو، ان دونوں کا ایک سوتیلا بھائی بھی ہو، پھر معلوم نہ ہو سکے کہ پہلے کون سا بھائی مرا ہے تو جو بھائی لاولد مرا ہے اس کا ترکہ اس کے سوتیلے بھائی کو ملے گا، اس کے بھتیجوں کو نہ ملے گا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْفَرَائِضِ/حدیث: 1491B3]
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اسی طرح اگر پھوپی اور بھتیجا ایک ساتھ مر جائیں، یا بھتیجے اور چچا ایک ساتھ مر جائیں، اور معلوم نہ ہو سکے پہلے کون مرا ہے، تو چچا اپنے بھتیجے کا وارث نہ ہوگا پہلی صورت میں، اور دوسری صورت میں بھتیجا اپنی پھوپھی کاوارث نہ ہوگا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْفَرَائِضِ/حدیث: 1491B4]