نافع سے روایت ہے کہ ایک شخص نے لقطہ پایا، اس کو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس لے آیا اور پوچھا: کیا کہتے ہو اس باب میں؟ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: لوگوں سے پوچھ اور بتا۔ اس نے کہا: میں پوچھ چکا اور بتا چکا۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: اور سہی۔ اس نے کہا: میں پوچھ چکا اور بتا چکا۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: میں کبھی تجھ کو حکم نہ کروں گا اس کے کھانے کا، اگر تو چاہتا تو اس کو نہ لیتا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الرَّهْنِ/حدیث: 1461]
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12063، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 3824، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 18623، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 22061، والشافعي فى «المسنده» برقم: 282/2، والشافعي فى «الاُم» برقم: 69/4، 226/7، فواد عبدالباقي نمبر: 36 - كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ-ح: 48»
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک حکم یہ ہے کہ غلام اگر لقطہ پائے اور اس کو خرچ کر ڈالے میعاد گزرنے سے پہلے، یعنی ایک برس سے پہلے تو وہ اس کے ذمہ رہے گا، اب جب اس کا مالک آئے تو غلام کا مولیٰ لقطے کی قیمت ادا کرے، یا غلام کو حوالے کر دے، اگر غلام نے میعاد گزرنے کے بعد اس کو صرف کیا تو وہ اس کے ذمے قرض رہے گا، جب آزاد ہو اس سے لے لے، فی الحال کچھ نہیں لے سکتا، نہ مولیٰ کو اس کا دینا لازم ہے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الرَّهْنِ/حدیث: 1462Q1]