سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے جو بی بی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا: ”مردار کی کھالوں سے نفع اٹھانے کو جب دباغت کی جائیں۔“[موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الصَّيْدِ/حدیث: 1052]
تخریج الحدیث: «مرفوع ضعيف، وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1286، 1290، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4257، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4556، 4557، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4124، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2030، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3612، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 50، 65، 67، وأحمد فى «مسنده» برقم: 25085، فواد عبدالباقي نمبر: 25 - كِتَابُ الصَّيْدِ-ح: 18»
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: مضطر کو درست ہے کہ مردار کو پیٹ بھر کر کھائے، اور اس میں سے کچھ توشہ اٹھا رکھے، لیکن اگر حلال مل جائے تو اس توشہ کو پھینک دے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الصَّيْدِ/حدیث: 1053Q1]
تخریج الحدیث: « «انفرد به المصنف من هذا الطريق» ، فواد عبدالباقي نمبر: 25 - كِتَابُ الصَّيْدِ-ح: 19»
سوال ہوا امام مالک رحمہ اللہ سے کہ مضطر مردار کو کھائے یا کسی شخص کے باغ کے میوے یا کھیت یا بکری کو کھا جائے؟ امام مالک رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ اگر باغ یا کھیت یا بکری کا مالک مضطر کو سچا سمجھے، اور چور سمجھ کے اس کا ہاتھ نہ کٹوائے، تو ان چیزوں کا کھانا مردار سے بہتر ہے۔ اگر مضطر کو خوف ہو کہ ان چیزوں کا مالک اس کو سچا نہ سمجھے گا، بلکہ چور کا خیال کر کے اس کا ہاتھ کٹوائے گا، تو مردار کھانا بہتر ہے۔ اور اگر پرایا مال کھا جانا ہر حال میں مردار سے بہتر ہوتا تو بدمعاش لوگ پرائے مال کو اسی بہانے چکھ جائیں گے [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الصَّيْدِ/حدیث: 1053Q2]