سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص قسم کھائے کسی کام پر، پھر اس کے خلاف بہتر معلوم ہو تو کفارہ دے قسم کا اور کرے جو بہتر معلوم ہو۔“ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ النُّذُورِ وَالْأَيْمَانِ/حدیث: 1020]
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1650، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4349، والنسائی فى «الكبریٰ» برقم: 4704، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1530، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 18922، 19907، 19920، 20007، 20019، 20020، وأحمد فى «مسنده» برقم: 8855، والبزار فى «مسنده» برقم: 9759، فواد عبدالباقي نمبر: 22 - كِتَابُ النُّذُورِ وَالْأَيْمَانِ-ح: 11»
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: جو شخص یہ کہے میرے اوپر نذر ہے اور یہ کچھ نہ کہے کہ کس بات کی نذر ہے، تو اس پر کفارہ قسم کا لازم ہے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ النُّذُورِ وَالْأَيْمَانِ/حدیث: 1020B1]
فرمایا: ایک شخص نے یوں قسم کھائی کہ قسم اللہ کی میں یہ کھانا نہیں کھاؤں گا، اور یہ کپڑا نہیں پہنوں گا، اور گھر میں نہیں جاؤں گا، پھر یہ سب کام کئے تو ایک ہی کفارہ لازم آئے گا، اس کی مثال ایسی ہے کہ کوئی اپنی عورت کو کہے کہ تجھ کو طلاق ہے اگر یہ کپڑا تجھ کو پہناؤں، اور مسجد جانے کی تجھ کو اجازت دوں، تو یہ ایک کلام گنا جائے گا، اب اگر اس میں سے کوئی امر ہو جائے تو طلاق پڑ جائے گی۔ پھر دوسرا امر ہو گا تو دوبارہ طلاق نہ پڑے گی. [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ النُّذُورِ وَالْأَيْمَانِ/حدیث: 1020B2]
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: عورت کو نذر کرنا درست ہے بغیر خاوند کی اجازت کے، جب اس نذر سے خاوند کو کچھ ضرر نہ ہو، اور جو خاوند کو ضرر ہو تو اس سے منع کر سکتا ہے، مگر وہ نذر عورت پر واجب رہے گی جب موقع ملے ادا کر لے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ النُّذُورِ وَالْأَيْمَانِ/حدیث: 1020B3]