سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلى الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص ایک جوڑا (مثلاً دو اونٹ یا دو بکریاں یا دو روپے) صرف کرے اللہ کی راہ میں تو قیامت کے روز جنت کے دروازے پر پکارا جائے گا: اے بندے اللہ کے! یہ خیر ہے، تو جو شخص نمازی ہو گا وہ نماز کے دروازے سے بلایا جائے گا، جو شخص جہادی ہو گا وہ جہاد کے دروازے سے بلایا جائے گا، جو شخص صدقہ دینے والا ہو گا وہ صدقہ کے دروازے سے بلایا جائے گا، جو شخص روزے بہت رکھے گا وہ باب الریان سے بلایا جائے گا۔“ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم! جو شخص کسی ایک دروازے سے بلایا جائے اس کو کچھ حرج نہ ہو گا، مگر کوئی ایسا بھی ہوگا جو سب دروازوں سے بلایا جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، اور مجھے امید ہے کہ تم ان میں سے ہو گے۔“[موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْجِهَادِ/حدیث: 1006]
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1897، 2841، 3216، 3666، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1027، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2480، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 308، 3418، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3185، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2231، 2558، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3674، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 18635، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7748، 8912، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1212، والبزار فى «مسنده» برقم: 8078، فواد عبدالباقي نمبر: 21 - كِتَابُ الْجِهَادِ-ح: 49»
امام مالک رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ اگر امام نے کسی قوم پر کافروں کا جزیہ مقرر کیا، ان کافروں میں سے کوئی شخص مسلمان ہو گیا تو اس کی زمین اور جائیداد اسی کو ملے گی یا مسلمانوں کی ملک ہو جائے گی؟ امام مالک رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ اس میں دو صورتیں ہیں، اگر وہ کافر صلح کر کے خوشی سے بغیر جنگ کے جزیہ پر راضی ہو گئے ہیں، ان میں سے جو کوئی مسلمان ہو گا اس کی زمین اور جائیداد اسی کو ملے گی۔ اگر وہ کفار جنگ کر کے تلوار کے زور سے مطیع ہوئے ہوں تو ان کی زمین اور جائیداد مسلمانوں کی ملک ہو جائے گی، اگرچہ کوئی ان میں سے مسلمان ہو جائے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْجِهَادِ/حدیث: 1007Q1]