655- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے گوہ کے بارے میں دریافت کیا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میں اسے کھاتا بھی نہیں ہوں اور میں اسے حرام بھی قرار نہیں دیتا۔“
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:655
فائدہ: ① سانڈا حلال ہے۔ حدیث میں مذکور الفاظ «ولا أحـرمـه» اس کی صریح دلیل ہیں۔ صحيح بخاری اور صحیح مسلم میں مروی سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی حدیث اس سے بھی صریح ہے کہ انہوں نے «ضــــــــب»، یعنی سانڈے کے متعلق خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: «أحرام الضب يا رسول الله؟»”اے اللہ کے رسول! کیا سانڈا حرام ہے؟“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لا ولكن لم يكن بأرض قومي فأجدني أعافه» ”نہیں (سانڈا حرام نہیں) لیکن یہ میری قوم کے علاقے میں نہیں تھا، اس لیے میں اس سے (طبعی طور پر) کراہت محسوس کرتا ہوں۔ [صحيح البخاري حديث: 5391 صحيح مسلم حديث: 1945] ② معلوم ہوا حلال وطیب چیز جوطبعاً نا پسند ہو اسے کھانا ضروری نہیں۔ اس سے اس کی حالت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ طبی لحاظ سے دیکھا جائے تو نا پسند چیز کھانے سے نا خوشگوار اور منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ③ حدیث میں لفظ ”ضب“ استعمال ہوا ہے۔ ہمارے ہاں عموما اس کے معنی”گو“ کیے جاتے ہیں لیکن جو اوصاف ضب کے بیان کیے گئے ہیں، وہ تمام کے تمام سانڈے میں بھی پائے جاتے ہیں، اس لیے درست بات یہی ہے کہ اس سے مراد سانڈا ہے، گوہ نہیں۔ واللہ اعلم۔ ④ معلوم ہوا ضب حرام نہیں ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھانے سے منع فرما دیتے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دستر خوان پر آپ کے سامنے اسے کھایا گیا۔ باقی رہا آپ کا اسے نہ کھانا تو آپ کی طبع لطیف کا تقاضا تھا۔ آپ بہت سی ایسی چیزوں سے پرہیز فرماتے تھے جو قطعاً حلال ہیں، مثلاً: لہسن، پیاز وغیرہ۔ حلت اور حرمت الگ چیز ہے اور طبعی کراہت و نا پسندیدگی الگ چیز ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 658