59- ابوکثیر بیان کرتے ہیں: میں اپنے آقا سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا اس وقت جب انہوں نے اہل نہروان کے ساتھ جنگ کی تھی کچھ لوگوں کو نہیں قتل کرنے کے بارے میں الجھن محسوس ہوئی تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے لوگو! اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ بات بتائی ہے۔: ”بے شک کچھ لوگ دین سے یوں نکل جائیں گے، جس طرح تیر نشانے سے پار ہوجاتا ہے، اور وہ لوگ دین میں واپس کبھی نہیں آئیں گے۔ یاد رکھنا! ان کی مخصوص نشانی یہ ہے کہ ان کے درمیان ایک سیاہ شخص ہوگا، جس کے ایک ہاتھ کی بناوٹ ناقص ہوگی۔ اس کا ایک ہاتھ عورت کی چھاتی کی طرح ہوگا اور وہ یوں حرکت کرتے گا، جس طرح عورت حرکت کرتی ہے۔“ راوی کہتے ہیں: میرا خیال ہے روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں: اس کے ارد گرد سات بال ہوں گے (سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:) تم لوگ اسے تلاش کرو، کونکہ میرا خیال ہے، وہ ان میں ہوگا، تو لوگوں نے نہر کے کنارے مقتولین میں اس شخص کو پالیا تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ کہا ہے۔ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے اپنے گلے میں عربی کمان لٹکائی ہوئی تھی انہوں نے وہ کمان اس کے ناقص ہاتھ پر چھوتے ہوئے یہ بات کہی۔ [مسند الحميدي/أَحَادِيثُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ/حدیث: 59]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجهأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“: 478، وانظر فتح الباری: 293/18-298»
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:59
فائدہ: اس حدیث میں خارجیوں کا ذکر ہے، ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ ان کا کچھ تعارف ہو جائے: خارجیوں کے مختلف نام اور القابات ہیں۔ انھیں خارجی اس لیے کہا جاتا ہے کہ انہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کیا تھا۔ انھیں حکمیہ بھی کہا جاتا ہے، اس لیے کہ انہوں نے سیدنا ابوموسی اشعری اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم کو حاکم (فیصل) ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ حاکم صرف اللہ تعالیٰ ہے، جبکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان دو کو فیصل مان لیا تھا۔ ان کو حروریہ بھی کہا: جا تا ہے، اس لیے کہ اس گروہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ چھوڑ کر حروریہ مقام پر پڑاؤ ڈالا تھا۔ انھیں شراۃ بھی کہا: جا تا ہے، اس لیے کہ ان کا دعویٰ تھا کہ ہم نے اللہ کے رستے میں اپنی جانیں فروخت کر دی ہیں۔ انھیں مارقہ بھی کہا جاتا ہے، اس لیے کہ یہ دین سے نکلے ہوئے تھے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں خبر دی تھی کہ یہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے نکل جا تا ہے۔ پھر یہ دین میں واپس نہیں آ سکیں گے، لہٰذا یہ لوگ دین اسلام، ملت اور جمعیت اسلام سے خارج ہو چکے ہیں۔ صراط مستقیم سے بھٹکے ہوئے ہیں۔ حکومت اسلامیہ کے باغی ہیں۔ خلفاء کے خلاف انہوں نے تلوار میں سونت لی ہیں۔ ان کے مال وخون کو حلال قرار دیا ہے۔ اپنے مخالفین کو کافر قرار دیا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور دین کے مددگاروں کو برا بھلا کہا، ان سے بیزاری کا اظہار کیا، انھیں کفر اور کبائر کا مرتکب قرار دیا۔ ان کی مخالفت کو جائز سمجھا۔ عذاب قبر اور حوض کوثر کی نفی کی، شفاعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلایا، گناہ گار مسلمانوں کو دائمی جہنمی خیال کیا اور کہا: جس کسی نے جھوٹ بولا، صغیرہ یا کبیرہ گناہ کا ارتکاب کیا اور بلا توبہ فوت ہو گیا تو وہ کافر اور جہنمی ہے، ان کا دعوی ہے کہ جماعت امام کے علاوہ کسی اور کے پیچھے نہیں ہوتی، ان کے پندرہ فرقے ہیں۔ تفصیل کے لیے غنیۃ الطالبین (ص: 4، 216) کا مطالعہ کریں۔ اس حدیث میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا خارجیوں کا قلع قمع کرنے میں کردار بیان ہوا ہے کہ انہوں نے ان کو قتل کیا ہے۔ لوگوں میں خارجیوں کے سردار کا نام”حرقوس“ مشہور تھا، (سنن ابی داود: 4770، اسنادہ حسن)، اس شخص کے حالات کی کے کچھ وضاحت سنن ابی داود (4770، اسنادہ حسن) میں اس طرح ہے: ابومریم نے کہا: کہ لنجا (خارجی) آ دمی ان دنوں ہمارے ساتھ مسجد میں ہوتا تھا۔ دن رات ہم اس کے ساتھ بیٹھتے تھے۔ فقیر آدمی تھا۔ میں نے اسے ان مسکینوں کے ساتھ دیکھا جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ کھانے میں شریک ہوا کرتے تھے جو وہ لوگوں کے ساتھ تناول فرمایا کرتے تھے۔ ابومریم نے کہا: اس لنجے کا نام نافع ذوالثدیہ (پستان والا) تھا۔ اس کے باز وعورت کے پستان کی طرح تھے، اور اس کے سر پر بھٹنی بھی تھی، اور اس پر بلی کی مونچھوں کی طرح کچھ بال تھے۔ آج کے دور کے داعش بھی خارجی ہیں۔ نیز ” «الرمية»“، کا معنی کمان کیا جا تا ہے جو کہ درست نہیں بلکہ عام کتب لغت میں اس کا معنی شکار لکھا ہوا ہے اور یہی معنی درست ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 59