47- ابn عبدخیر اپنے والد کیا یہ بیان نقل کرتے ہیں: میں نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو پاؤں کے اوپری حصے پر مسح کرتے ہوئے دیکھا وہ یہ فرمارہے تھے: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے اوپری حصے پر مسح کرتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو، میرا یہ خیال ہے کہ ان کے نیچے والا حصہ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اس پر مسح کیا جائے۔ امام حمیدی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: اگر یہ واقعہ موزوں پر مسح کے مارے میں ہے، تو یہ سنت ہے اور اگر موزوں کے علاوہ ہے، تو پھر یہ حکم ”منسوخ“ ہے۔ [مسند الحميدي/أَحَادِيثُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ/حدیث: 47]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه أحمد 95/1، عبداللہ ابنه فى الزوائد المسنده 114/1 وابوداود 162، 163، 164، أبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“: 287/1-455، برقم: 346، 613، والدارقطني 199/1 برقم: 23، 24، وابن حزم فى المحلي: 111/2، والبيهقي: 292/1»
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:47
فائدہ◄ موزوں اور جرابوں پر مسح میں طریقۂ کار یہ ہے کہ ان کے اوپر گیلا ہاتھ پھیرا جائے، موزوں اور جرابوں کے نیچے مسح کرنا ثابت نہیں ہے۔ مسح کرنے کا طریقہ معیں نہیں ہے، جس پر مسح کا اطلاق ہو، وہ مسح ہے، خواہ پاؤں کے اوپر سے انگلیوں کی طرف کیا جائے یا انگلیوں کی طرف سے شروع کرے اور اوپر کو کرے، واللہ اعلم بالصواب۔ پاؤں پر مسح کرنا قرآن و حدیث سے مذاق ہے، افسوس کہ بعض اسلام دشمن لوگ خود شریعت سازی کرتے ہیں۔ اللہ تعالی انھیں ہدایت عطا فرمائے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 47