249- عروہ بیان کرتے ہیں: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کے پاس آکر بیٹھے وہ اس وقت نماز ادا کررہی تھیں، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کرنا شروع کی اور یہ کہنے لگے: اے حجرے کی مالک خاتون! آپ سنئے جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نماز مکمل کی تو انہوں نے مجھ سے کہا! اے میرے بھانجے! کیا تمہیں اس شخص پر اور اس کے طرز بیان پر حیرت نہیں ہورہی؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی بات کرتے تھے، تو اگر کوئی گننے ولا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کو) گننا چاہتا تو وہ گن سکتا تھا (یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر ٹھہر کر بیان کرتے تھے) امام حمیدی کہتے ہیں: سفیان نے یہ روایت بھی زہری سے نہیں سنی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده، منقطع، وانظر تعليقا على الإسناد الأسبق، وتعليق الحميدي فى نهاية الحديث والحديث متفق عليه، فقد أخرجه البخاري فى المناقب 3567، 3568، باب: صفة النبى صلى الله عليه وسلم ومسلم فى فضائل الصحابة 2493، باب: من فضائل أبى هزيرة الدوسي .وقد استوفينا تخريجه فى مسند الموصلي برقم 4393، 4677، وفي صحيح ابن حبان، برقم 7153»
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:249
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ تدریس اور خطبے کے دوران بات آہستہ آہستہ کرنی چاہیے، تا کہ سامعین بات کو اچھی طرح سمجھ لیں بعض لوگوں کا تدریس اور خطابت میں تیز تیز بولنا درست نہیں ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 249