الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


مسند الحميدي
أَحَادِيثُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
17. حدیث نمبر 24
حدیث نمبر: 24
24 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ، ثني عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي يَزِيدَ، أَخْبَرَنِي أَبِي قَالَ: أَرْسَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِلَي شَيْخٍ مِنْ بَنِي زُهْرَةَ مِنْ أَهْلِ دَارِنَا قَدْ أَدْرَكَ الْجَاهِلِيَّةَ فَجِئْتُ مَعَ الشَّيْخِ إِلَي عُمَرَ وَهُوَ فِي الْحِجْرِ، فَسَأَلَهُ عُمَرُ عَنْ وِلَادٍ مِنْ وِلَادِ الْجَاهِلِيَّةِ، فَقَالَ الشَّيْخُ: أَمَّا النُّطْفَةُ فَمِنْ فُلَانٍ، وَأَمَّا الْوَلَدُ فَعَلَي فِرَاشِ فُلَانٍ، فَقَالَ عُمَرُ صَدَقْتَ «وَلَكِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَي بَالْفِرَاشِ» فَلَمَّا وَلَّي الشَّيْخُ دَعَاهُ عُمَرُ فَقَالَ" أَخْبِرْنِي عِنْ بِنَاءِ الْكَعْبَةِ فَقَالَ إِنَّ قُرَيْشًا تَقَرَّبَتْ لِبِنَاءِ الْكَعْبَةِ فَعَجَزُوا وَاسْتَقْصَرُوا فَتَرَكُوا بَعْضًا فِي الْحِجْرِ فَقَالَ عُمَرُ: صَدَقْتَ"
24- عبید اللہ بن ابویزید بیان کرتے ہیں: میرے والد نے مجھے یہ بات بتائی ہے ایک مرتبہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بنوزہرہ سے تعلق رکھنے والے ایک بزرگ کو پیغام بھیج کر اسے بلوایا وہ ہمارے محلے میں رہتا تھا اس نے زمانہ جاہلیت پایا ہوا تھا۔ میں اس بزرگ کے ساتھ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اس وقت حطیم میں موجود تھے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس سے زمانہ جاہلیت میں پیدا ہونے والی (ناجائز اولاد کے بارے میں) دریافت کیا، تو وہ بزرگ بولا: جہاں تک نطفے کا تعلق ہے، تو وہ فلاں شخص کا تھا جہاں تک پیدائش کا تعلق ہے، تو وہ فلاں شخص کے فراش پر ہوئی تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بولے: تم نے ٹھیک کہا ہے، لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فراش کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔ جب وہ عمر رسیدہ شخص واپس مڑگیا، تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اسے بلایا اور دریافت کیا: تم مجھے خانۂ کعبہ کی تعمیر کے بارے میں بتاؤ؟ اس نے بتایا: قریش خانۂ کعبہ کی تعمیر کرکے نیکی حاصل کرنا چاہتے تھے، لیکن وہ اس کو بنانے سے عاجز ہوگئے، ان کے پاس (ساز و سامان) کم ہوگیا تو انہوں نے حطیم والی جگہ کا کچھ حصہ چھوڑ دیا۔ تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: تم نے سچ کہا ہے۔ [مسند الحميدي/أَحَادِيثُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 24]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏إسناده صحيح، وأخرجه ازرقي فى أخبار،مكة 158/1، والبيهقي فى المعرفة السنن والآثار 238/7 برقم 9920»

مسند الحمیدی کی حدیث نمبر 24 کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:24  
فائدہ:
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کبھی کبھار زیادہ عمر والے لوگوں کو، جنھوں نے زمانۂ جاہلیت دیکھا ہوتا تھا، بلا کرمختلف باتیں پوچھا: کرتے تھے، اور بعض بوڑھے بہت دانا اور عقلمند ہوتے ہیں۔ ان کی باتیں ان کے تجربات زندگی سے مزین ہوتی ہیں۔ اگر کوئی زیادہ عمر والا شخص مل جائے تو اس سے گفتگو کر نی چاہیے، کیونکہ اس نے ایک زمانہ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہوتا ہے۔ بوڑھے نے پہلے سوال کا جو جواب دیا، سید نا عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے جواب میں حدیث بیان کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ (بچے کا جو کسی غیر کے نطفے سے پیدا ہوا) بستر والے کے لیے کیا ہے۔
اس حدیث میں بستر والے سے مراد عورت کا شوہر یا لونڈی کا مالک ہے۔ بیٹا اس کا شمار ہوگا جس کے گھر میں پیدا ہوا ہے، اور وہ وراثت میں برابر کا حق دار ہوگا، اس بچے کا بدکاری کر نے والے مرد سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الولد للفراش وللعاهر الحجر لڑ کا بستر والے کا ہے، اور زانی کے لیے پتھر ہے (یعنی زانی کو رجم کر دیا جائے گا۔) (صحیح مسـلـم: 1458) بوڑھے نے جو دوسرے سوال کا جواب دیا کہ حطیم اس لیے چھوڑا گیا ہے کہ قریش مکہ کا مال ختم ہو گیا تھا، اس کی تفصیل صحیح البخاری (1584) میں موجود ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 24