230- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: ”جو بھی عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرتی ہے، تو اس کا نکاح باطل ہوگا، اس کا نکاح باطل ہوگا، اس کا نکاح باطل ہوگا، اگر مرد اس عورت کے ساتھ صحبت کرلیتا ہے، تو عورت کو مہر ملے گا کیونکہ مرد نے اس کی شرمگاہ کو استعمال کیا ہے اور اگر ان لوگوں کے درمان اختلاف ہوجاتا ہے، تو جس کو کوئی ولی نہ ہو حاکم وقت اس کا ولی ہوتا ہے۔“[مسند الحميدي/أَحَادِيثُ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 230]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وقد استوفينا تخريجه فى «مسند الموصلي» برقم 2508، وفي صحيح ابن حبان برقم 4074، 4075، وفي موارد الظمآن برقم 1248»
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:230
فائدہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ولی کے بغیر نکاح باطل ہے۔ آ ج کل عدالتوں میں بغیر ولی کے شادیاں بہت زیادہ ہو رہی ہیں، جبکہ اس بات میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔ جو نکاح عدالتوں میں بغیر ولی کے ہو رہے ہیں، حقیقت میں وہ نکاح نہیں ہیں، وہ لڑکا لڑ کی ساری عمر بدکاری کریں گے، اور ان کی اولاد حرامی ہوگی۔ ہاں اگر ایسی صورت ہو کہ لڑکی کا کوئی ولی نہیں ہے تو اس کا ولی حاکم وقت ہے۔ ➊ نکاح میں جس طرح لڑکی کی رضا مندی ضروری ہے، اس طرح اس کے سر پرست کی اجازت بھی ضروری ہے۔ ➋ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح شرعاً غیر قانونی ہے، لہٰذا اگر سر پرست اجازت دینے سے انکار کر دے تو میاں بیوی میں جدائی کروا دی جائے گی۔ ➌ مقاربت کے بعد جدائی ہونے کی صورت میں مرد کے ذمے پورا حق مہر ادا کرنا لازم ہوگا۔ ➍ اسلامی سلطنت میں بادشاہ کو نکاح کے معاملات میں مداخلت کا حق حاصل ہے، اسی طرح بادشاہ کے نائب مقامی حکام بھی یہ حق رکھتے ہیں، موجودہ حالات میں اس قسم کے فیصلے عدالتیں کرتی ہیں، پنچایت میں بھی یہ معاملہ حل کیا جا سکتا ہے۔ ➎ اگر کوئی بچی لاوارث ہو اور اس کا کوئی قریبی رشتے دار نہ ہو جو سرپرست کے طور پر اس کے مفادات کا خیال رکھ سکے، تو اس صورت میں بھی اسلامی سلطنت کو سرپرست کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ مسئلہ ولایت نکاح کی مزید تحقیق وتفصیل کے لیے ملاحظہ ہو کتاب ”مفرورلڑکیوں کا نکاح اور ہماری عدالتیں“ از حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 230