178- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، پہلے لوگ خود کام کاج کیا کرتے تھے، تو جمعہ کے دن وہ اسی حالت میں آجایا کرتے تھے، تو انہیں یہ کہا گیا: اگر تم غسل کرلو (تو یہ بہتر ہوگا)۔ [مسند الحميدي/أَحَادِيثُ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 178]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البخاري فى ”صحيحه“ برقم: 903، 2071، ومسلم فى ”صحيحه“ برقم: 847، وابن خزيمة فى ”صحيحه“: برقم: 1753، وابن حبان فى ”صحيحه“: برقم: 1236»
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 903
903. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ لوگ اپنا کام کاج خود کیا کرتے تھے اور جب جمعہ کے لیے آتے تو اسی حالت میں چلے آتے۔ اندریں حالات ان سے کہا گیا کہ کاش تم نے غسل کر لیا ہوتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:903]
حدیث حاشیہ: باب اور حدیث میں مطابقت لفظ حدیث کانو ''إذا راحوا إلی الجمعة'' سے ہے۔ علامہ عینی ؒ فرماتے ہیں لأن الرواح لا یکون إلابعد الزوال امام بخاری نے اس سے ثابت فرمایا کہ صحابہ کرام جمعہ کی نماز کے لیے زوال کے بعد آیا کرتے تھے معلوم ہوا کہ جمعہ کا وقت بعد زوال ہوتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 903
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:903
903. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ لوگ اپنا کام کاج خود کیا کرتے تھے اور جب جمعہ کے لیے آتے تو اسی حالت میں چلے آتے۔ اندریں حالات ان سے کہا گیا کہ کاش تم نے غسل کر لیا ہوتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:903]
حدیث حاشیہ: (1) جمعہ کا وقت جمہور ائمہ کے نزدیک وقت ظہر ہی ہے، یعنی اسے بھی زوال آفتاب کے بعد پڑھنا چاہیے جبکہ امام احمد کا موقف ہے کہ جمعہ، عیدین کے وقت بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس عنوان میں امام احمد ؒ کے موقف سے اختلاف کر کے جمہور کے موقف کو ثابت کیا ہے، چنانچہ اس حدیث میں لفظ "راحوا" استعمال ہوا ہے جس کے معنی بعد از زوال جانا ہے جیسا کہ اکثر اہل لغت نے اس کی صراحت کی ہے۔ پھر اس حدیث میں وضاحت ہے کہ اسی حالت میں لوگوں کو پسینہ آ جاتا جس سے بدبو پھیل جاتی۔ ایسا ہونا سخت گرمی میں ممکن ہے جبکہ وہ عوالی سے آتے تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ لوگ زوال یا اس کے قریب قریب مسجد میں آتے ہوں گے۔ اسی مناسبت سے امام بخاری ؒ نے حدیث عائشہ ؓ کو ذکر کیا ہے۔ (فتح الباري: 499/2)(2) بعض حنابلہ نے نماز جمعہ قبل از زوال، یعنی چاشت کے وقت پڑھنا جائز قرار دیا ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جمعہ کو مسلمانوں کی عید قرار دیا ہے، اس بنا پر عیدین کے وقت اسے پڑھا جا سکتا ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ اسے مسلمانوں کی عید قرار دینے کا مطلب یہ نہیں کہ عید کے تمام احکام اس پر چسپاں کر دیے جائیں۔ عید کے دن روزہ رکھنا حرام ہے لیکن جمعہ کے دن روزہ رکھا جا سکتا ہے۔ (فتح الباري: 498/2) اس کے علاوہ جمعہ میں خطبہ نماز سے پہلے ہے جبکہ عیدین میں نماز کے بعد ہے۔ عیدین میں نماز سے پہلے نوافل ادا کرنا منع ہے جبکہ جمعہ سے پہلے جائز ہے۔ عیدین کے لیے اذان و اقامت نہیں جبکہ جمعہ کے لیے اذان اور اقامت کہی جاتی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 903