1214- سیدنا ابوہریر ہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”جنت میں ایک درخت ہے، جس کے سائے میں کوئی سوار ایک سو سال تک چلتا رہے، تو پھر بھی وہ اسے پارنہیں کرسکتا اگر تم چاہو تو یہ آیت تلاوت کرسکتے ہو“۔ «وَظِلٍّ مَمْدُو»(9-التوبة:30)”اور پھیلے ہوئے سائے۔“ اور فجر کی نماز میں رات کے فرشتے اور دن کے فرشتے شریک ہوتے ہیں، اگر تم چاہو تو یہ آیت تلاوت کرسکتے ہو۔ «وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا» (17-الإسراء:78)”اور فجر کی تلاوت، بے شک فجر کی تلاوت میں حاضر ہوتی ہے۔“[مسند الحميدي/بَابٌ جَامِعٌ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ/حدیث: 1214]
تخریج الحدیث: «إسناده فيه جهالة، غير أن الحديث صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2793، 3252، 4881، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2826، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6158، 7411، 7412، 7417، 7418، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 3189، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 11019، 11500، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2523، 3013، 3292، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2862، 2880، 2881، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 4335، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7614، 8283، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1165، 1214، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5853، 6316»
حافظ عبدالله شميم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيفه همام بن منبه 5
´جنت کے درخت کا سایہ` «. . . قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فِي الْجَنَّةِ شَجَرَةٌ يَسِيرُ الرَّاكِبُ فِي ظِلِّهَا مِائَةَ عَامٍ لا يَقْطَعُهَا " . . . .» ”. . . اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقیناً جنت میں ایک درخت ہے جس کے سائے میں ایک سوار سو (۱۰۰) سال تک چلتا رہے تو بھی اس کو ختم نہ کرے گا . . .“[صحيفه همام بن منبه: 5]
شرح حدیث: مذکورہ حدیث میں جنت میں لگے اس درخت کا ذکر ہے کہ کوئی شخص سواری پر اس کے سائے میں سو (100) سال بھی چلتا رہے جب بھی اس کا سایہ ختم نہ ہو گا۔ جنت کا تعلق اخروی جہان سے ہے، وہاں کا نظام، وہاں کا ماحول اور وہاں کے قوانین ہمارے اس زمین والے جہان سے بالکل مختلف ہیں، لہذا اس جہان کے قوانین کو اس جہان کے قوانین پر قیاس کرنا بالکل غلط ہے۔ جب کوئی آدمی اس کا انکار کرے کہ اتنا بڑا درخت اور اس کا اتنا لمبا سایہ کیسے ہو سکتا ہے؟ درحقیت یہ حدیث قرآن مجید کی اس آیت کی تفسیر ہے جس میں فرمایا: «وَظِلٍّ مَّمْدُودٍ»[الواقعة: 30] ”اور لمبے پھیلے ہوئے سائے ہوں گے۔“ اور جنت کی چوڑائی بیان کرتے ہوئے فرمایا: «وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ»[آل عمران: 133] ”اور جلدی کرو اپنے رب کی بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف (دوڑو)، جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے، جو پرہیزگاروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔“ اور دوسرے مقام پر فرمایا: «سَابِقُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ»[الحديد: 21] ”دوڑو اپنے رب کی مغفرت کی طرف اور اس جنت کی طرف جس کی کشادگی آسمان و زمین کی کشادگی کی مانند ہے۔“ تو جب جنت کی کشادگی آسمان و زمین کے برابر ہے تو پھر یہ بعید نہیں کہ اس جنت میں اتنا بڑا درخت ہو کہ جس کا سایہ سو (100) سال سواری دوڑانے کے بعد بھی ختم نہ ہو۔ یہی حدیث صحیح بخاری میں برقم (3252) موجود ہے، اور اس کے آخر میں یہ الفاظ زائد ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: «وَاقْرَؤُا إِنْ شِئْتُمْ وَظِلٍّ مَّمْدُودٍ»[الواقعه: 30] ”اور اگر چاہو تو پڑھ لو......، اور لمبے پھیلے ہوئے ساحے ہوں گے۔“ حدیث کے سیاق و سباق سے یہ بات واضح ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم درحقیقت اس آیت کریمہ کی تفسیر فرما رہے ہیں کہ ”لمبے پھیلے ہوئے سایے ہوں گے۔“ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کی لمبائی بیان کر دی، اور یہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا وظیفہ تھا کہ قرآن مجید کی تفسیر و تشریح کرتے اور اس کے مبہمات اور مجملات کی وضاحت فرماتے۔ جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے: «وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ»[النحل: 44] ”اور ہم نے آپ کی طرف یہ ذکر (قرآن مجید) کو نازل کیا ہے کہ آپ اس کی وضاحت کر دیں۔“ یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو گئی کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم قرآن کے شارح اور مفسر ہیں۔ لہذا جیسا کہ قرآن مجید قطعی الثبوت ہے، ایسے ہی حدیث رسول علی صاحبہا الصلوة والسلام بھی قطعی الثبوت ہے، اور انکار حدیث کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
صحیفہ ہمام بن منبہ شرح حافظ عبداللہ شمیم، حدیث/صفحہ نمبر: 80
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4335
´جنت کے احوال و صفات کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت میں ایک درخت ہے، اس کے سائے میں سوار سو برس تک چلتا رہے گا لیکن وہ ختم نہ ہو گا، اگر تم چاہتے ہو تو یہ آیت پڑھو: «وظل ممدود»”جنت میں دراز اور لمبا سایہ ہے“(سورة الواقعة: 3)۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4335]
اردو حاشہ: فوائد ومسائل: جنت میں دھوپ نہیں ھو گی لیکن درختوں کا وجود بھی ایک نعمت ہے جس سے منظر خشگوار ہوتا ہے۔ جنت کا ایک ایک درخت اتنا بڑا ہو گا اور اس کی شاخوں کا پھیلا ؤں اس قدر ہو گا کہ دنیا کے لحاظ سے ہزاروں میل پہ محیط ہو گا۔ اس سے جنت کی وسعت کا بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4335
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1165
1165- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”جنت میں ایک درخت ہے، جس کے سائے میں ایک سوار ایک سوسال تک بھی چلتا رہے گا، تو بھی اسے پار نہیں کرسکے گا، اگر تم چاہو، تو یہ آیت تلاوت کرلو۔ «وَظِلٍّ مَمْدُودٍ» (56-الواقعة:30)”اور پھیلے ہوئے سائے۔““[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1165]
فائدہ: اس حدیث میں جنت کے ایک درخت کا ذکر ہے کہ سو سال سوار چلتا رہے تو اس کا سایہ ختم نہیں ہوگا، یہ تو صرف ایک درخت ہے، اللہ نے تو جنت میں اس سے بھی بڑی بڑی نعمتیں تیار کر رکھی ہیں، دنیا کی نعمتوں کے بارے میں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ”تم ان کو شمار نہیں کر سکتے“، تو جنت کی نعمتوں کو انسان کیسے شمار کر سکتا ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1163
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4881
4881. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ تک اس حدیث کو پہنچاتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جنت میں ایک اتنا بڑا درخت ہے جس کے سائے میں اگر سوار سو برس تک چلتا رہے تو بھی اس کا سایہ ختم نہ ہو گا۔ اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو: ﴿وَظِلٍّۢ مَّمْدُودٍ﴾ اور لمبے لمبے سائے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:4881]
حدیث حاشیہ: یہ سایہ سورج کا نہ ہوگا بلکہ خدا کے نور کا سایہ ہوگا بعض نے کہا خدا کے عرش کا سایہ ہوگا کیونکہ جنت میں سورج نہ ہوگا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4881
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3253
3253. ”بے شک جنت میں تمھاری کمان رکھنے کی جگہ ہر اس چیز سے بہتر ہے جس پر سورج طلوع یا غروب ہوتا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3253]
حدیث حاشیہ: 1۔ ایک روایت میں اس درخت کا نام طوبیٰ بتایا گیا ہے۔ (فتح الباري: 392/6) ایک دوسری روایت میں ہے۔ ”اگر تیار شدہ تیز رفتار گھوڑا سو سال تک بھی سرپٹ دوڑتا رہے تو بھی اسے طے نہیں کرسکے گا۔ “(عمدة القاري: 609/10) سورہ واقعہ میں اللہ تعالیٰ نے جنت کے سائے کے متعلق فرمایا: ”وہاں جنت میں درختوں کا سایہ دور دراز تک پھیلا ہوا ہو گا۔ “(الواقعة: 56۔ 30) 2۔ مذکورہ احادیث و آیات سے روز روشن کی طرح واضح ہے کہ جنت ایک مجسم حقیقت کا نام ہے اورجو لوگ جنت کو محض خواب و خیال کی حد تک مانتے ہیں وہ خطرناک غلطی پر ہیں۔ ممکن ہے کہ ایسے لوگوں کے لیے جنت محض ایک خواب ناقابل تعبیر ہی بنا جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے وساوس سے محفوظ رہے۔ 3۔ بعض حضرات نے سائے سے مراد راحت و نعمت لیا ہے لیکن اس تاویل کی بجائے حقیقی معنی مراد لینا ہی زیادہ صحیح ہے کیونکہ دنیا اور جنت کی چیزوں کا موازنہ ممکن نہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3253
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4881
4881. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ تک اس حدیث کو پہنچاتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جنت میں ایک اتنا بڑا درخت ہے جس کے سائے میں اگر سوار سو برس تک چلتا رہے تو بھی اس کا سایہ ختم نہ ہو گا۔ اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو: ﴿وَظِلٍّۢ مَّمْدُودٍ﴾ اور لمبے لمبے سائے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:4881]
حدیث حاشیہ: ایک روایت میں ہے: ”بہترین عمدہ،تیار شدہ تیز رفتار گھوڑا بھی سوسال تک اسے طے نہیں کرسکے گا۔ “(صحیح مسلم، الجنة و نعیمھا، حدیث: 7139(2828) ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سدرۃ المنتہیٰ کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا: ”سوار اس کی شاخوں کے سائے میں سوسال چلتا رہےگا۔ ۔ ۔ یافرمایا۔ ۔ ۔ اس کے سائے میں سو سوار آسکیں گے۔ اس پر پتنگے سونے کے ہوں گے اور اس کا پھل بڑے مٹکوں کی طرح ہوگا۔ “(جامع الترمذي، صفة الجنة، حدیث: 2541)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4881