الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


مسند الحميدي
بَابٌ جَامِعٌ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول متفرق روایات
68. حدیث نمبر 1192
حدیث نمبر: 1192
1192 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا ابْنُ عَجْلَانَ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «مَا مِنْ قَوْمٍ يَجْلِسُونَ مَجْلِسًا لَا يَذْكُرُونَ اللَّهَ فِيهِ إِلَّا كَانَ عَلَيْهِمْ تِرَةٌ»
1192- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں: جب کچھ لوگ کسی محفل میں بیٹھے ہوئے ہوں اور وہاں اللہ کاذکر نہ کریں، تو یہ چیز ان کے لیے (قیامت کے دن) حسرت کا باعث ہوگی۔

[مسند الحميدي/بَابٌ جَامِعٌ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ/حدیث: 1192]
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 590، 591، 592، 853، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1814، 1815، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4855، 4856، 5059، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3380، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5853، وأحمد فى «مسنده» برقم: 9174، 9713»

   جامع الترمذيما جلس قوم مجلسا لم يذكروا الله فيه ولم يصلوا على نبيهم إلا كان عليهم ترة فإن شاء عذبهم وإن شاء غفر لهم
   سنن أبي داودما من قوم يقومون من مجلس لا يذكرون الله فيه إلا قاموا عن مثل جيفة حمار وكان لهم حسرة
   بلوغ المرامما قعد قوم مقعدا لم يذكروا الله فيه ولم يصلوا على النبي صلى الله عليه وآله وسلم إلا كان عليهم حسرة يوم القيامة
   مسندالحميديما من قوم يجلسون مجلسا لا يذكرون الله فيه إلا كان عليهم ترة

مسند الحمیدی کی حدیث نمبر 1192 کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1192  
فائدہ:
اس حدیث میں اس مجلس کی مذمت کی گئی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر نہ ہو، اس سے معلوم ہوا کہ کوئی بھی مجلس ایسی نہیں ہونی چاہیے جس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر نہ کیا جائے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1190   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1335  
´ذکر اور دعا کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں بیٹھتی کوئی قوم کسی مجلس میں کہ انہوں نے اس مجلس میں اللہ کا ذکر کیا اور نہ نبی پر درود بھیجا مگر وہ مجلس ان کیلئے قیامت کے روز باعث حسرت و ندامت ہو گی۔ اسے ترمذی نے نکالا ہے اور اسے حسن قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1335»
تخریج:
«أخرجه الترمذي، الدعوات، باب ما جاء في القوم يجلسون ولا يذكرون الله، حديث:3380.»
تشریح:
1.اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہر مجلس میں اللہ کا ذکر ضرور ہونا چاہیے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود ضرور بھیجنا چاہیے مگر بعض درود و سلام اور ان کے پڑھنے کے مختلف انداز جو ہمارے دور میں شروع ہوچکے ہیں‘ ان کا وجود عہد رسالت اور دور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں نظر نہیں آتا۔
یہ لوگوں کی اپنی ایجاد ہے۔
اگر وہ اسے مسنون اور باعث اجر و ثواب سمجھتے ہیں تو یہ بدعت ہے۔
2.اجتماعی ذکر میں درس و تدریس اور تعلیم و تعلم سب سے بہتر طریقہ ہے۔
3. اکٹھے ایک جگہ بیٹھ کر اپنے طور پر ذکر الٰہی اور درود پڑھنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1335   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3380  
´لوگوں کی مجلس اللہ کے ذکر سے غافل ہو اس کی برائی کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگ کسی مجلس میں بیٹھیں اور اللہ کی یاد نہ کریں، اور نہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر (درود) بھیجیں تو یہ چیز ان کے لیے حسرت و ندامت کا باعث بن سکتی ہے۔ اللہ چاہے تو انہیں عذاب دے، اور چاہے تو انہیں بخش دے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3380]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث کا سبق یہ ہے کہ مسلمان جب بھی کسی میٹنگ میں بیٹھیں تو آخرمجلس کے خاتمہ پر پڑھی جانے والی دعاء ضرور پڑھ لیں،
نہیں تو یہ مجلس بجائے اجروثواب کے سبب کے وبال کا سبب بن جائے گی (یہ حدیث رقم: 3433 پر آ رہی ہے)

نوٹ:
(سند میں صالح بن نبہان مولی التوأمۃ صدوق راوی ہیں،
لیکن آخر میں اختلاط کا شکار ہو گئے تھے،
اس لیے ان سے روایت کرنے والے قدیم تلامیذ جیسے ابن ابی ذئب اور ابن جریج کی ان سے روایت مقبول ہے،
لیکن اختلاط کے بعد روایت کرنے والے شاگردوں کی ان سے روایت ضعیف ہو گی،
مسند احمد کی روایت زیاد بن سعد اور ابن ابی ذئب قدماء سے ہے،
نیز طبرانی اور حاکم میں ان سے راوی عمارہ بن غزیہ قدماء میں سے ہے،
اور حاکم نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے،
اور متابعات بھی ہیں،
جن کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے،
ملاحظہ ہو:
الصحیحة رقم: 74)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3380