1176- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں لوگ یہ کہتے ہیں: کہ ابوہریرہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بکثرت احادیث نقل کرتا ہے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے، میں ایک غریب شخص تھا میں اپنے پیٹ میں (ضروری) خوراک ڈال کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہا کرتا تھاجبکہ انصار اپنی زمینوں کی دیکھ بھال کیا کرتے تھے مہاجرین بازار، میں سودے اور لین دین کیا کرتے تھے ایک مرتبہ میں ایک محفل میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کون شخص میری گفتگو ختم کرنے تک اپنی چادر کو بچھا ئے گا اور پھر اسے سمیٹ لے گا، تو وہ میری زبانی جو بھی بات سنے گا اسے کبھی نہیں بھولے گا“، تو میں نے اپنے جسم پر موجود چادر کو بچھا دیا یہاں تک کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات مکمل کی، تو میں نے اسے سمیٹ لیا اس ذات کی قسم! جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ہمراہ معبوث کیا ہے اس کے بعد میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سنی ہوئی کوئی بات کبھی نہیں بھولا۔ سفیان کہتے ہیں: مسعود نامی راوی نے یہ بات نقل کی ہے پھر ایک اور صاحب کھڑے ہوئے انہوں نے بھی اپنی چادرکو بچھایا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”دوس کا رہنے والا جوان تم پر سبقت لے گیا ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 118، 119، 2047، 2350، 3648، 7354، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2492، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 7153، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 3092، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5835، 5836، 5837، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3834، 3835، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 262، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7395، 7396، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6219، 6229، 6248»
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1176
فائدہ: اس سے معلوم ہوا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ احادیث سے بڑی محبت کرتے تھے، اور انہوں نے سب سے زیادہ احادیث روایت کی ہیں، ان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑی محبت تھی، اس لیے ہمیشہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہتے اور احادیث سنتے تھے، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایک طالب علم کو تعلیم کی تمام رکاوٹوں کو پس پشت ڈالتا چاہیے، اور ہمیشہ استاذ کے ساتھ چمٹے رہنا چاہیے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسکینی علم کے سامنے رکاوٹ نہیں ہے، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مال کو سنبھال کر اس کو اللہ کے سپرد کرنا چاہیے، اور اس کی نگرانی بھی کرنی چاہیے، اور یہ بھی ثابت ہوا کہ خرید و فروخت (تجارت) سنت ہے۔ اور یہ بھی ثابت ہوا کہ کاروبار کے ساتھ انسان علم حاصل کر سکتا ہے، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایک استاذ کو شاگرد کے لیے کھلا وقت نکالنا چاہیے، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ استاذ کو ہر وہ طریقہ اختیار کرنا چاہیے جس سے طلباء کو سمجھ آ جائے، اور ہمیشہ طلباء کے لیے دعا کرتے رہنا چاہیے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قسم صرف اللہ کی کھانی چاہیے، اگر رسول کی قسم کھانی جائز ہوتی تو سیدنا ابوہر رضی اللہ عنہ ضرور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کھاتے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1174