1170- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”کیا تم لوگ اس بات پر حیران نہیں ہوتے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے قریش کے برا کہنے اور ان کے برا کرنے کو کیسے پھیر دیا ہے؟ وہ لوگ برا کہتے ہوئے مذمت کرتے ہیں، لعنت کرتے ہوئے مذمت کرتے ہیں جبکہ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہوں (یعنی جس کی تعریف کی گئی ہے)“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3533، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6503، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3438، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5602، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 17240، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7449، 8594، 8947، والبزار فى «مسنده» برقم: 8861»
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1170
فائدہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس کو گالی دی جائے، اس کو گالی سے کچھ فرق نہیں پڑتا، بلکہ گالی دینے والے کو گناہ ملتا ہے، اور گالی دینا مطلقاً حرام ہے، اور گالی شیطان اور کسی جانور کو بھی دینا منع ہے، افسوس کہ آج ہر بات کے ساتھ گالی دی جاتی ہے، لوگوں کو اس پر ڈانٹنا چاہیے، اور خود گالی پر کنٹرول رکھیں۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1168
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3468
´زبان سے ادا کیے ہوئے کلمہ کا اگر کوئی وہ معنی و مفہوم مراد لے جو اس سے نہیں نکلتا تو اس سے کوئی حکم ثابت نہ ہو گا۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ذرا دیکھو تو (غور کرو) اللہ تعالیٰ قریش کی گالیوں اور لعنتوں سے مجھے کس طرح بچا لیتا ہے، وہ لوگ مجھے مذمم کہہ کر گالیاں دیتے اور مذمم کہہ کر مجھ پر لعنت بھیجتے ہیں اور میں محمد ہوں“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3468]
اردو حاشہ: قریش مکہ جب اپنے منصوبوں میں ناکام ہوتے تو جلتے بھنتے ہوئے نبی اکرمﷺ کو برا کہنے لگتے لیکن وہ لعن طعن کے وقت محمد ﷺ کے بجائے مذمم کا لفظ بولتے کیونکہ محمد کے معنیٰ تو ہیں وہ شخص جس کی سب تعریفیں کریں۔ اگر وہ آپ کو محمد کہہ کر گالی گلوچ کرتے تو یہ اجتماع نقیضین تھا۔ ویسے بھی وہ آپ کو اتنے اچھے نام کے ساتھ پکارنا نہیں چاہتے تھے‘ لہٰذا وہ محمد کے لفظ کو مذمم سے بدل دیتے اور گالیاں دیتے۔ اس طریقے سے اللہ تعالیٰ نے آپ کے نام کو گالی گلوچ سے بچا لیا۔ امام رحمہ اللہ کا مقصود یہ ہے کہ کسی لفظ کے ایسے معنی مراد نہیں لیے جا سکتے جس سے وہ معنیٰ کسی بھی لحاظ سے سمجھ میں نہ آتے ہوں‘ جیسے مذمم کے معنیٰ کسی بھی صورت میں محمد نہیں ہوسکتے۔ یہاں نیت کفایت نہیں کرے گی۔ اسی طرح کوئی ایسا لفظ بول کر طلاق مراد نہیں لی جاسکتی جو کسی لحاظ سے بھی طلاق کے معنیٰ نہ دیتا ہو‘ خواہ نیت طلاق ہی کی ہو‘ مثلاً: کوئی کہے: ”میں نے تجھے انعام دیا“ اور طلاق مراد لے تو یہ ممکن نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3468
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3533
3533. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کیا تم تعجب نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ قریش کی گالیوں اور ان کے لعن و طعن کو مجھ سے کیسے دور کرتا ہے؟ وہ مذمم کو گالیاں دیتے اور مذمم پر لعنت کرتے ہیں جبکہ میں تو محمد ہوں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3533]
حدیث حاشیہ: عرب کے کافر دشمنی سے آپ کو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نہ کہتے بلکہ اس کی ضد میں مذمم نام سے آپ کو پکارتے یعنی مذمت کیا ہوا برا۔ آپ نے فرمایا کہ مذمم میرا نام ہی نہیں ہے، جو مذمم ہوگا اسی پر ان کی گالیاں پڑیں گی۔ حافظ ؒنے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اور بھی نام وارد ہیں جیسے رؤف، رحیم، شاہد، بشیر، نذیر، مبین، داعی الی اللہ، سراج منیر، مذکر، رحمت، نعمت، ہادی، شہید، امین، مزمل، مدثر، متوکل، مختار، مصطفی، شفیع، مشفع، صادق، مصدوق وغیرہ وغیرہ۔ بعض نے کہا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کے نام بھی اسماءحسنیٰ کی طرح ننانوے تک پہنچتے ہیں، اگر مزید تلاش کئے جائیں تو سوتک مل سکیں گے (صلی اللہ علیہ وسلم) ۔ مبارک نام محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بارے میں حافظ صاحب ؒ فرماتے ہیں: أي الذي حمد مرة بعد مرة أو الذي تکاملت فیه الخصائل المحمودة قال عیاض: کان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم أحمد قبل أن یکون محمد کما وقع في الوجود لأن تسمیة أحمد وقعت في الکتب السابقة وتسمیة محمد وقعت في القرآن العظیم و ذلك أنه حمد ربه قبل أن یحمدہ الناس وکذلك في الآخرة بحمدربه فیشفعه فیحمدہ الناس وقد خص بسورة المحمد وبلواءالحمد و بالمقام المحمود و شرع له الحمد بعد الأکل والشرب و بعد الدعاء وبعد القدوم من السفر و سمیت أمته الحمادین فجمعت له معاني الحمد وأنواعه (صلی اللہ علیه وسلم)(فتح الباري) ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3533
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3533
3533. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کیا تم تعجب نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ قریش کی گالیوں اور ان کے لعن و طعن کو مجھ سے کیسے دور کرتا ہے؟ وہ مذمم کو گالیاں دیتے اور مذمم پر لعنت کرتے ہیں جبکہ میں تو محمد ہوں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3533]
حدیث حاشیہ: 1۔ کفار قریش شدت عداوت کی بنا پر آپ کو محمد کے نام سے یاد نہ کرتے تھے کیونکہ اس نام سے آپ کی تعریف اور مدح کا پہلو نمایاں ہوتا تھا۔ اس کے معنی ہیں بہت اچھی خصلتوں والا۔ یہ بات انھیں بہت ناگوارتھی،اس لیے وہ آپ کو محمد کے بجائےمذمم کہتے تھے،حالانکہ آپ کانام مذمم نہیں اور نہ لوگ ہی اس نام سے آپ کو جانتے تھے تو جو کچھ وہ اس نام کے حوالے سے آپ کے متعلق کہتے تھے اللہ تعالیٰ اس کو آپ سے پھیر دیتا تھا،چنانچہ ابولہب کی بیوی کہا کرتی تھی: ہم مذمم سے بغض رکھتے ہیں۔ اس کے دین سے انکارکرتے ہیں۔ اور اس کے حکم کی نافرمانی کرتے ہیں۔ 2۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں: امام نسائی ؒنے اس حدیث سے استنباط کیا ہے کہ جو شخص ایسا کلام کرے جو طلاق یا فراق کے منافی ہو اور اس سے طلاق کا ارادہ کرے تو طلاق واقع نہیں ہوگی۔ جیسے کسی نے اپنی بیوی سے کہا تو کھا اور اس سے مراد وہ طلاق لیتا ہے تو عورت مطلقہ نہیں ہوگی کیونکہ کھانے کی تفسیر طلاق سے نہیں کی جاسکتی۔ اسی طرح محمد کی تفسیر کسی نے مذمم سے نہیں کی اس بنا پر مذمم کو بُرا بھلا کہنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی حرف نہیں آئے گا۔ (فتح الباري: 682/6)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3533