109- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا پتہ چلا ہے۔ ”دو آدمی تیسرے کو چھوڑ کر سرگوشی میں بات نہ کریں، کیونکہ یہ چیز (اس تیسرے شخص کو) غمگین کردے گی۔“[مسند الحميدي/أَحَادِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ/حدیث: 109]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، أخرجه البخاري فى ”صحيحه“ برقم: 2356، 2416، 25152666، 2669، 2673،2676،4549، 5240،5241،6290، 6659، 6676،7183، 7445، ومسلم فى ”صحيحه“ برقم: 138، 2184،وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“:5114، 5132، 5220، 5255، وابن حبان فى ”صحيحه“: 583،4160،4161، 5084،5085، 5086»
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:109
فائدہ: کسی بھی صورت میں مسلمان کی دل آزاری کرنا جائز نہیں ہے، خواہ وہ دل آزاری زبان سے ہو، یاعمل سے۔ دانائی سے کام لے کر زندگی گزارنی چاہیے، اس میں بڑا سکون و اطمینان ہوتا ہے۔ جب کسی کو آپ سے تکلیف نہیں ہوگی تو وہ بھی آپ کو کوئی تکلیف نہیں پہنچائے گا، ورنہ زندگی پریشانیوں میں ہی گزرے گی۔ بدگمانی فساد کی جڑ ہوتی ہے، اس سے ہر صورت بچنا چاہیے۔ جب تین شخص اکٹھے ہوں تو ظاہر ہے کہ ان کے آپس میں اچھے تعلقات ہیں لیکن جب ان میں سے دو الگ ہوکر باتیں کریں گے تو بدگمانیوں کا سلسلہ شروع ہو جائے گا، اور نقصان ہوگا۔ اس لیے شریعت اسلامیہ نے کس قدر عمدہ اصول بنائے ہیں، کاش! مسلمان ان اصولوں کے مطابق زندگی بسر کریں۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 109