مقسم کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ تلید بن کلاب لیثی کے ساتھ نکلاہم لوگ سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے وہ اس وقت ہاتھوں میں جوتے لٹکائے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے ہم نے ان سے پوچھا کہ غزوہ حنین کے موقع پر جس وقت بنوتمیم کے ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی تھی کیا آپ وہاں موجود تھے؟ انہوں نے فرمایا: ”ہاں بنوتمیم کا ایک آدمی جسے ذوالخولصیرہ کہا جاتا ہے آیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑا ہو گیا اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں مال غنیمت تقسیم فرما رہے تھے وہ کہنے لگا کہ اے محمد! صلی اللہ علیہ وسلم آج میں نے آپ کو مال غنیمت تقسیم کرتے ہوئے دیکھ لیا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا تمہیں کیسا لگا؟ اس نے کہا کہ میں نے آپ کو عدل سے کام لیتے ہوئے نہیں دیکھا یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ آگیا اور فرمایا: ”تجھ پر افسوس! اگر میرے پاس ہی عدل نہ ہو گا تو اور کس کے پاس ہو گا؟
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ!! کیا ہم اسے قتل نہ کر دیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں اسے چھوڑ دو عنقریب اس کے گروہ کے کچھ لوگ ہوں گے جو تعمق فی الدین کی راہ اختیار کر یں گے، وہ لوگ دین سے سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے تیر کے پھل کو دیکھا جائے تو اس پر کچھ نظر نہ آئے دستے پر دیکھآ جائے تو وہاں کچھ نظر نہ آئے اور سوار پر دیکھا جائے تو وہاں کچھ نظر نہ آئے بلکہ وہ تیر لید اور خون پر سبقت لے جائے۔ [مسند احمد/مسنَد المكثِرِینَ مِنَ الصَّحَابَةِ/حدیث: 7038]