نظلہ بن طریف کہتے ہیں کہ ان کے قبیلے کا ایک آدمی تھا جسے اعشی کہا جاتا تھا اس کا اصل نام عبداللہ بن اعور تھا اس کے نکاح میں جو عورت تھی اس کا نام معاذہ تھا ایک مرتبہ اعشی رجب کے مہینے میں ہجر نامی علاقے سے اپنے اہل خانہ کے لئے غلہ لانے کے لئے روانہ ہوا پیچھے سے اس کی بیوی اس سے ناراض ہو کر گھر سے بھاگ گئی اور اپنے قبیلے کے ایک آدمی کے یہاں پناہ لی جس کا نام مطرف بن بہصل۔۔۔۔۔۔ تھا اس نے اسے اپنی پناہ فراہم کر دی۔ جب اعشی واپس آیا تو گھر میں بیوی نہ ملی پتہ چلا کہ وہ ناراض ہو کر گھربھاگ گئی ہے اور اب مطرف بن بہصل کی پناہ میں ہے اعشی یہ سن کر مطرف کے پاس آیا اور کہنے لگا اے میرے چچازادبھائی! کیا میری بیوی معاذہ آپ کے پاس ہے؟ اسے میرے حوالے کر دیں اس نے نے کہا کہ وہ میرے پاس نہیں ہے اگر ہوتی بھی تو میں اسے تیرے حوالے نہ کرتا مطرف دراصل اس کی نسبت زیادہ طاقتور تھا چنانچہ اعشی وہاں سے نکل کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ اشعار کہتے ہوئے ان کی پناہ چاہی اے لوگوں کے سردار اور عرب کو دینے والے! میں آپ کے پاس ایک بدزبان عورت کی شکایت لے کر آیا ہوں وہ اس مادہ بھیڑیے کی طرح ہے جو سراب کے سائے میں دھوکہ دے دیتی ہے ماہ رجب میں اس کے لئے غلہ کی تلاش میں نکلا تھا اس نے پیچھے سے مجھے جھگڑے اور راہ فرار کا منظر دکھایا اس نے وعدہ خلافی کی اور اپنی دم ماری اور اس نے مجھے سخت مشکل میں مبتلا کر دیا اور یہ عورتیں غالب آنے والا شر ہیں اس شخص کے لئے بھی جو ہمیشہ غالب رہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کا یہ آخری جملہ دہرانے لگے کہ یہ عورتیں غالب آنے والا شر ہیں اس شخص کے لئے بھی جو ہمیشہ دوسروں پر غالب رہے اس کے بعد اعشی نے اپنی بیوی کی شکایت کی اور اس کا سارا کارنامہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا اور یہ بھی کہ اب وہ انہی کے قبیلے کے ایک آدمی کے پاس ہے جس کا نام مطرف بن بہصل ہے اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مطرف کو یہ خط لکھا کہ دیکھو اس شخص کی بیوی معاذہ کو اس کے حوالے کر دو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خط جب اس کے پاس پہنچا اور اسے پڑھ کر سنایا گیا تو اس نے اس عورت سے کہا کہ معاذہ یہ تمہارے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خط ہے اس لئے میں تمہیں اس کے حوالے کر رہا ہوں اس نے کہا کہ اس سے میرے لئے عہد و پیمان لے لئے اور اسے اس کے حوالے کر دیا اس پر اعشی نے یہ اشعار کہے تیری عمر کی قسم معاذہ تجھ سے میری محبت ایسی نہیں ہے جسے کوئی رنگ بدل سکے یا زمانہ کا بعد اسے متغیر کر سکے اور نہ ہی اس حرکت کی برائی جو اس سے صادر ہوئی جبکہ اسے بہکے ہوئے لوگوں نے پھسلا لیا اور میرے پیچھے اس سے سرگوشیاں کرتے رہے۔ [مسند احمد/مسنَد المكثِرِینَ مِنَ الصَّحَابَةِ/حدیث: 6886]