ابوسبرہ کہتے ہیں کہ عبیداللہ بن زیاد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوض کے متعلق مختلف حضرات سے سوال کرتا تھا اور باوجودیکہ وہ سیدنا ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ براء بن عازب رضی اللہ عنہ عائذ بن عمرو رضی اللہ عنہ اور ایک دوسرے صحابی رضی اللہ عنہ سے بھی یہ سوال پوچھ چکا تھا لیکن پھر بھی حوض کوثر کی تکذیب کرتا تھا ایک دن میں نے اس سے کہا کہ میں تمہارے سامنے ایسی حدیث بیان کرتا ہوں جس میں اس مسئلے کی مکمل شفاء موجود ہے تمہارے والد نے ایک مرتبہ کچھ مال دے کر مجھے سیدہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا میری ملاقات سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے ہوئی انہوں نے مجھ سے ایک حدیث بیان کی جو انہوں نے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی انہوں نے وہ حدیث مجھے املاء کروائی اور میں نے اسے اپنے ہاتھ سے کسی ایک حرف کی بھی کمی بیشی کے بغیر لکھا۔ انہوں نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ بےتکلف یا بتکلف کسی قسم کی بےحیائی کو پسند نہیں کرتا۔ اور قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک ہر طرف بےحیائی عام نہ ہو جائے قطع رحمی غلط اور برا پڑوس عام نہ ہو جائے اور جب تک خائن کو امین اور امین کو خائن نہ سمجھاجانے لگے۔ اور فرمایا: ”یاد رکھو تمہارے وعدے کی جگہ میرا حوض ہے جس کی چوڑائی اور لمبائی ایک جیسی ہے یعنی ایلہ سے لے کر مکہ مکرمہ تک جو تقریباً ایک ماہ مسافت بنتی ہے اس کے آبخورے ستاروں کی تعداد کے برابر ہوں گے اس کا پانی چاندی سے زیادہ سفید ہو گا جو اس کا گھونٹ پی لے گا وہ کبھی پیاسا نہ ہو گا۔ عبیداللہ بن زیاد یہ حدیث سن کر کہنے لگا کہ حوض کوثر کے متعلق میں نے اس سے زیادہ مضبوط حدیث اب تک نہیں سنی چنانچہ وہ اس کی تصدیق کر نے لگا اور وہ صحیفہ لے کر اپنے پاس رکھ لیا۔ [مسند احمد/مسنَد المكثِرِینَ مِنَ الصَّحَابَةِ/حدیث: 6514]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف من أجل أبى سبرة، فإنه مجهول